گرچہ میں راکھ ہوں، گرچہ میں خاک ہوں ۔ ابویحییٰ
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنا دوست قرار دیا ہے۔ ان کی جتنی تعریف قرآن پاک میں کی گئی ہے، اتنی تعریف کم ہی کسی نبی کی گئی ہے۔ غالباً یہی سبب ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے درود کے الفاظ سیکھنا چاہے تو آپ نے انہیں درود ابراہیمی سکھایا، جس میں حضورؐ پر اسی طرح رحمت اور برکت کی دعا ہے جس طرح حضرت ابراہیم پر رحمت اور برکت کی گئی۔
قرآن ایک مقام پر ان کے متعلق یہ کہتا ہے کہ وہ بڑے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب آپ نے حضرت لوطؑ کی قوم کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کی تھی۔ یہ بدبخت قوم بدترین فحاشی میں مبتلا تھی اور اپنی بدبختی اور جرائم کی بنا پر رحم و کرم کے ہر دروازے کو بند کرچکی تھی۔ فرشتے اس قوم کو سزا دینے سے پہلے حضرت ابراہیم کے پاس آئے اور انہیں حضرت اسحق اور حضرت یعقوب کی خوش خبری دی۔ پھر قوم لوط پر عذاب کے فیصلے کا ذکر کیا۔ اس پر حضرت ابراہیم نے اس قوم کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست انتہائی موثر اسلوب میں بڑے اصرار سے کی۔
بائبل میں اس اصرار کی تفصیل آئی ہے۔ بائبل کے مطابق اس موقع پر آپ نے عرض کیا کہ اے رب اگر قوم میں پچاس نیک لوگ ہیں تو ان کی وجہ سے قوم کو معاف کر دے، جواب ملتا ہے کہ اس قوم میں پچاس نیکو کار بھی نہیں ہیں، پھر وہ کہتے ہیں کہ اگر پینتالیس راستباز ہوں تو قوم کو معاف کر دے، مگر یہی جواب ملتا کہ پینتالیس بھی نہیں۔ پھر وہ گنتی کم کرتے ہوئے دس آدمیوں تک آجاتے ہیں مگر ہر دفعہ ایک ہی جواب ملتا ہے کہ اتنے لوگ بھی نہیں۔ اس گفتگو میں جو چیز سب سے زیادہ پراثر ہے وہ سیدنا ابراہیم کا انداز گفتگو ہے جو وہ پروردگار عالم کی بارگاہ میں اختیار کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ بائبل میں یوں نقل ہوئے ہیں:
’’دیکھیے! میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرات کی، اگرچہ میں راکھ اور خاک ہوں۔‘‘، (پیدائش20:18)
حضرت ابراہیم کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گفتگو کرنے کا ادب کیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات کے خالق اور مالک ہیں۔ ان کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ ان کی بادشاہی میں یہ ختم نہ ہونے والی کائنات ایک ذرہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ ان کی مرضی اور علم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں گرسکتا۔ ان کی ہیبت سے بڑے بڑے فرشتے لرزتے اور کاپنتے ہیں۔ وہ اگر اشارہ کر دیں تو ساری مخلوقات لمحہ بھر میں ختم ہوجائیں۔ ان کا کرم نہ ہو تو انسانیت بغیر ہوا اور پانی کے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے۔ آسمان و زمین کی ہر شے ہر لمحہ ان کی حمد، تسبیح اور تعریف کرتی اور ان کی عظمت کے ترانے پڑھتی رہتی ہے۔ آج ہر چند کہ اس نے اپنے جلال پر غیب کا پردہ ڈال رکھا ہے، مگر روز قیامت جب وہ یہ نقاب اتارے گا تو اس کے جلال کی تاب نہ لا کر یہ پہاڑ، سمندر، آسمان سب تباہ و برباد ہوجائیں گے۔
ایسی ہستی کے حضور گفتگو کا ادب وہی ہونا چاہیے جو حضرت ابراہیم نے اختیار کیا تھا۔ یہی سارے انبیا کا طریقہ ہے۔ اسی کا اظہار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دعاؤں سے ہوتا ہے جو مختلف کتب احادیث میں ملتی ہیں۔ تاہم حضرت ابراہیم کے واقعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خدا گرچہ بہت بلند، عظیم، صاحب قدرت اور صاحب جلال ہے، مگر اس کے ساتھ وہ بے حد محبت کرنے والا، رحمدل اور کریم بھی ہے۔ وہ جس طرح مجرموں کو سزا دینے میں سخت ہے اسی طرح وہ اپنے محبت کرنے والوں اور فرمانبرداروں پر بیحد مہربان ہے۔
اس محبت اور مہربانی کا اندازہ اس تبصرے سے ہوتا ہے جو قرآن نے قوم لوط پر عذاب کے وقت حضرت ابراہیم کی اوپر بیان کردہ گفتگو کے بارے میں کیا۔ عدل کے تقاضوں کے مطابق قوم لوط کو معاف نہیں کیا جاسکتا تھا، اس لیے ان کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ نہیں بدلا، مگر اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم کا رویہ ایسا پسند آیا کہ حضرت ابراہیم کے اصرار کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے کہ:
’’ابراہیم ہم سے قوم لوط کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا۔ وہ بڑا نرم دل اور رجوع کرنے والا تھا‘‘۔
اللہ سے جھگڑا کرنے کے پیرایۂ بیان سے جو محبت ٹپکتی ہے اس کا اندازہ کوئی صاحبِ دل ہی کرسکتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا یہ تبصرہ بتاتا ہے کہ جو شخص خود کو رب کے لیے مٹا دے، خدا سے عظمت کی آخری بلندیوں تک اٹھا کر لے جاتا ہے۔ وہ خدا کے مقابلے میں خود کو راکھ کہے اور خدا اسے اس مقام پر پہنچا دے جہاں وہ خدا کا دوست اور اس سے ’جھگڑا‘ کرنے والا بن جاتا ہے۔ وہ خود کو خاک کہے اور خدا اسے وہ رحمتیں اور برکتیں عطا کرے جن کی خواہش خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی کرتے ہیں۔