جلد بازی ۔ ابویحییٰ
میں سگنل کے قریب پہنچا تو سرخ بتی روشن ہوگئی۔ میں نے گھڑی دیکھی اور وقت کا شمار کرنے لگا۔ پینتالیس سیکنڈ بعد سگنل کھلا اور میں آگے بڑھ گیا۔ میں نے حساب لگایا کہ وہ گاڑی والا جو میرے ساتھ تھا اور سرخ اشارے کے باجود رکے بغیر آگے بڑھتا چلا گیا وہ اپنی منزل تک کتنا جلدی پہنچا ہوگا۔ اگر راستے میں چار سگنل بند ملیں تو پینتالیس سیکنڈ فی سگنل کے حساب سے کل تین منٹ کی تاخیر اسے پیش آئی ہوگی۔ پھر میں نے سوچا کہ کیا ہماری قوم وقت کی اتنی پابند ہے کہ سیکنڈ اور منٹ کے حساب سے اپنی ملاقاتوں اور دفتری اوقات کی پابندی کرتی ہے؟
اس سوال کا جواب ہر شخص جانتا ہے۔ پھر کیا سبب ہے کہ اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈال کر سگنل توڑ دینا ہمارے معمولات میں شامل ہے۔ بے اختیار میرے ذہن میں قرآن پاک کی وہ آیت گونجی، ’’خلق الانسان من عجل‘‘۔ انسانی مشین کو بنانے والے نے بڑے باکمال انداز میں مشین کا مسئلہ بیان کر دیا۔ انسان طبعاً جلد باز واقع ہوا ہے۔ جلد بازی کے اس رویے کو اچھی تربیت سے قابو میں نہ کیا جائے تو یہ انسان کے اوپر مسلط ہوجاتا ہے۔ ہماری قوم میں تربیت کے تمام ادارے کم و بیش تباہ ہوچکے ہیں، اس لیے جلد بازی جیسی منفی عادت کو ایک حد میں رکھنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آئے دن سڑکوں پر موت کا رقص ہوتا رہتا ہے۔ سگنل توڑنے کے علاوہ، حد رفتار سے زیادہ تیز گاڑی چلانا، آپس میں ریس لگانا، غلط اوور ٹیک کرنا، یہ اسی طبیعت انسانی کے وہ مظاہر ہیں جن کو ہر روز ہم اپنی سڑکوں پر دیکھتے ہیں اور جس کے نتیجے میں ہر روز ان گنت بوڑھے جوان، چھوٹے بڑے، مرد و عورت، معمولی سی جلد بازی کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص کی یہ مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اگر اپنی شخصیت کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو اپنی طبیعت میں موجود جلد بازی کے عنصر پر قابو پانے کی کوشش کرے۔ جلد بازی کا رویہ صرف سڑکوں ہی پر نہیں بلکہ زندگی کے عام معمولات میں بھی ہمیں بہت نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی لیے بڑوں میں یہ محاورہ مشہور تھا کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ شیطان بلاشبہ انسان کا دشمن ہے۔ وہ ہمیں جلدی میں مبتلا کر کے ہماری دنیا اور آخرت دونوں کو بدترین نقصان پہنچاتا ہے۔