جیسے کسی جنگل میں پڑا ایک چھلّا۔۔۔۔۔ ۔ ہمایوں مجاہد تارڑ
یہ سیارہ زمین ہے۔ ایک عام آدمی کے وجود کے مقابل جس کا حجم تقریباً 20 ارب گُنا بڑا ہے۔ اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اور پھر دوسری طرف سے گھوم کر واپس اسی مقام تک کا کل فاصلہ 40 ہزار کلو میٹر ہے، یعنی اس کا کل دائرہ جسے circumference کہا جاتا ہے۔ بیچ میں جنگل، دریا، پہاڑ، سمندر اور ہیبت ناک وسعتوں کے حامل ریگستان حائل ہیں۔ اب بھی ایسے مقامات ہیں جہاں انسانی قدموں کی چاپ نہیں سنی گئی۔ ہوا کے دوش پر سوار ہوکر پاس پڑوس کے کسی ملک تک کا فضائی سفر بھی ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت طلب کرتا ہے۔ ذرا سا آگے جاؤ، جیسے تھائی لینڈ یا کوالا لمپور یا سنگاپور تک کا سفر درپیش ہو تو سفری مدّت 8 سے 10 گھنٹوں تک پھیل جاتی ہے کہ مسافت بھی تقریباً 5 ہزار کلومیٹر تک طویل ہوجاتی ہے۔ تاہم، حیرت ہے کہ ایسی وسعتوں اور فاصلوں کا حامل سیارہ زمین جو نظامِ شمسی میں اپنے پڑوسی سیاروں عطارد، زہرہ اور مریخ سے بڑا ہے، مضحکہ خیز حد تک باقی اجسامِ فلکی سے چھوٹا ہے۔ سیارہ مشتری میں اس جیسی 13 زمینیں سما جائیں۔ جبکہ سورج میں ایسی 13 لاکھ زمینیں سما جائیں کہ وہ چار ملّین یعنی 40 لاکھ کلومیٹر کا دائرہ لیے زمین سے لاکھوں گنا بڑا ہے۔ سورج کا ڈائیامیٹر ہی دیکھ لیں یعنی دائرے کے اندر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا فاصلہ تو وہ ہماری زمین کے ڈائیامیٹر سے 109 گنا بڑا ہے۔ ہمارے سولر سسٹم کا یہ عظیم الجثہ ستارہ یعنی آفتاب ہماری زمین سے 3 لاکھ تینتیس ہزار گنا زیادہ وزنی ہے۔ اِس پر بھی بس نہیں۔ وہ 150 ملین کلومیٹر کی مسافت پر کھڑا ہے!
یہ زمین ہے جہاں اربوں کی تعداد میں موجود نسلِ آدم آج اپنا جیون یوں گزارتی ہے کہ ایک فرد کو اپنی گلی اور محلے سے ذرا پرے جھانکنے کو ٹیلی ویژن سکرین کا سہارا چاہیے، یا اُسے ایک موٹر گاڑی میں بیٹھ کر عازمِ سفر ہونا پڑتا ہے۔ ملتان سے لاہور، اور لاہور سے اسلام آباد یا پشاور تک کی مسافت کے لیے وہ ”طویل مسافت” ایسے الفاظ بولتا ہے۔ یہاں کے زمانی فاصلے بھی ہمیں بڑے طویل دِکھتے ہیں کہ ہم آہ بھر کر”لانگ لانگ ٹائم اَگو” ایسے الفاظ منہ بھر بھر انڈیلا کرتے ہیں جب یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ پچیس یا پینتالیس برس پہلے یا چلیں 5 یا 8 صدیاں پہلے فلاں واقعہ ہوا تھا۔ ہزاروں مذاہب، تمام معیشت، قوموں کے ہیروز، انسانیت کے قاتل، تمام بادشاہ، تمام غربا جن کا کبھی کوئی وجود تھا یا اب ہے، ورلڈ کپ ایسی رونقیں، عالمی جنگ ایسے ہوشربا واقعات، سیلاب، زلزلے، آفات۔ ۔ ۔ سب اسی زمین پر برپا ہیں جن کی یادداشتیں سمیٹے یہاں لاکھوں کتابیں بھی جمع ہیں۔ زندگی کا ایسا حیرت ناک حجم! اور ہاں تیز رفتار سوپر سونک طیارے بھی اسی زمین پر رہ رہ کر اڑانیں بھرا کرتے ہیں۔
تاہم، دنیا میں سب سے تیز رفتار روشنی کی رفتار ہے جو 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہے۔ یہ رفتار اس قدر زیادہ ہے کہ اس حساب سے ہم زمین کے گرد ایک سیکنڈ کے مختصر ترین عرصہ میں 7 چکر لگا سکتے ہیں۔ اب اگر ہم اسی رفتار سے ایک پورا سال سفر میں رہیں تو اسے وَن لائٹ year یا ایک نوری سال کہا جاتا ہے۔ ہماری زمین سے قریب ترین ستارہ سورج ہے جو 150 ملین کلومیٹر دور ہے۔ دوسرا قریب ترین ستارہ ایلفا سنٹوری ہے، یعنی جو سورج سے بھی قریب ترین ستارہ ہے۔ سورج سے اس کا فاصلہ 4 اعشاریہ 22 نوری سال ہے۔ ہمارے سورج کے حجم سے کئی گنا بڑے ستارے نہ صرف دیکھے جاچکے بلکہ اُن سب کے نام بھی رکھے جاچکے، اور اُن کے خواص وغیرہ بھی خوب ذمہ داری و سنجیدگی سے سٹڈی کیے جا رہے ہیں۔ آگے بڑھتے ہیں، اب تک قابلِ مشاہدہ کائنات میں جو ستارے دریافت ہوئے ہیں، اُن میں سب سے بڑا ستارہ وی وائے کینس میجورس VY Canis Majoris ہے۔ اس کا ڈائیامیٹر ہمارے سورج کے مقابلہ میں دو ہزار گُنا زیادہ ہے، یعنی ایسے ہزاروں سورج اس میں سما جائیں۔ زمین سے VY Canis Majoris تین ہزار نو سو(3,900) نوری سال کی مسافت پر ہے، یعنی وہاں تک پہنچنے کو ہمیں کائنات کی عمر سے بھی کئی گنا زیادہ وقت درکار ہوگا، جبکہ کائنات کی کل عمر تقریباً 14 ارب سال ہے۔
لیکن ذرا ٹھہریے۔ دم بھر کو سانس بحال کرلیجیے۔ ابھی تو کائنات کا سفر شروع ہی نہیں ہوا۔
اتنا تو آپ جانتے ہی ہیں کہ سیارہ زمین باقی کے7 سیاروں کے ہمراہ سورج کے گردا گرد چکر لگانے میں مصروفِ عمل ہے۔ اِسے ہم نظامِ شمسی یا سولر سسٹم کا نام دیتے اور ایک چھوٹا سا خاندان کہا کرتے ہیں۔ تاہم، ہمارا یہ خاندان کسی محلّے کی ایک ذیلی یا چھوٹی گلی کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا پورا محلّہ وہ کہکشاں ہے جسے مِلکی وے milky way کا نام دیا گیا ہے۔ ہماری اس کہکشاں میں اب تک دریافت ہونے والے ایسے ہی سولر سسٹمز کی کل تعداد 500 ہے، یعنی جو قابلِ مشاہدہ ہے۔ جبکہ یہ تعداد ہر سال بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ماہرینِ فلکیات اب اندازہ لگانے کی پوزیشن میں آچکے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ آثار و قرائن کے مطابق صرف اس ایک کہکشاں میں اربوں سولر سسٹمز ہیں۔ ایک ویب سائٹ پر لکھا ہے 100 بِلّین یعنی ایک سو ارب سولر سسٹمز ہوسکتے ہیں۔ جبکہ یہی سوال اگر آپ سیدھا سیدھا گوگل کرلیں کہ مِلکی وے میں کتنے سولر سٹمز ہیں تو کھٹاک سے موصول ہونے والا جواب یہ ملتا ہے 200 ارب سولر سسٹمز۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ایک اور اہم بات ان اجسامِ فلکی کے بیچ حائل طویل مسافتیں ہیں۔ اس کہکشاں کے اندر فاصلے اس قدر طویل ہیں کہ بالفرض ہم اگر ایک ایسی گاڑی میں سوار ہو جائیں جو ایک سیکنڈ میں 3 لاکھ کلومیٹر کی رفتار سے بھاگ سکتی ہو تو ہمیں اِس کہکشاں سے باہر نکلنے کو ایک لاکھ سال سفر میں رہنا ہوگا۔ یقینا یہ فاصلہ دماغ کو چکرا دینے کے لیے کافی ہے۔ مگر خلا کا سفر تو ابھی شروع ہوا ہے۔
ہماری مِلکی وے کہکشاں سے بھی بڑی ہماری پڑوسی کہکشاں ہے جس کا نام Andromeda Galaxy ہے۔ یہ ہماری مِلکی وے سے دو گنا بڑی ہے یعنی اس کی چوڑائی دو لاکھ نوری سال جتنی وسیع و عریض ہے۔ لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں! چونکہ اس سے کچھ آگے M 8 Galaxy نامی کہکشاں ہماری کہکشاں سے 7 گنا بڑی ہے۔ اِس سے آگے آئی سی وَن وَن زیرو وَن IC 1101 نامی کہکشاں ہماری کہکشاں سے 600 گنا بڑی ہے۔
جیسے ستاروں سے مل کر کہکشائیں بنتی ہیں، اسی طرح کہکشاؤں سے مل کر کَلسٹرز clusters وجود پاتے ہیں۔ اب جس کلسٹر میں ہماری کہکشاں موجود ہے اسے لوکل کلسٹر یا لوکل گروپ Local Group کا نام دیا گیا ہے، اور اس میں ایسی کُل 54 کہکشائیں ہیں۔ مگر کائنات کی وسعت یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ کلسٹرز بھی آپس میں مل کر سوپر کلسٹرز super clusters بناتے ہیں۔ جِس سُوپر کلسٹر میں ہم رہتے ہیں، اسے ورگو کلسٹر Virgo Cluster کہتے ہیں۔ اور اس میں تقریباً 100 کلسٹرز موجود ہیں۔ اس ورگو کلسٹر کی چوڑائی، ایک سرے سے دوسرے سرے تک، ایک سو دس مِلّین نوری سال 110 million light year wide ہے۔ سب سے بڑا سُوپر کلسٹر جو اب تک دریافت ہوا اُس کا نام لیانکا سُوپر کلسٹر Liankea Super Cluster ہے۔ یہ ایک لاکھ کہکشاؤں پر مشتمل ہے۔ اور اس کا ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا فاصلہ 520 مِلّین نوری سال ہے۔
بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوتی۔
اس سے آگے بڑھیں تو وہ تصاویر جو کائنات کے مجموعی حجم اور ان کلسٹرز کے گروپ فوٹوز لینے پر فوکسڈ ہیں، اُن میں یہ لیانکا نامی کلسٹر بھی ریت کے ایک ذرّے جتنا نظر آتا ہے۔
یہ سب کچھ کائنات کا وہ حصہ ہے جسے مشاہداتی یا قابلِ مشاہدہ یا observable universe کہتے ہیں۔ ایسٹرانومرز اپنی طاقتور ٹیلی سکوپس کی مدد سے اور خلا میں چھوڑے گئے سیٹیلائٹس کی مدد سے جو تصویریں اتار کر ویب سائٹوں پر ڈال رہے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کائنات ایسے اربوں سُوپر کلسٹرز پر مشتمل ہے جو ہمیں دور سے بس چھوٹے چھوٹے نقطوں کی صورت نظر آتے ہیں۔ یعنی کھربوں کہکشائیں ہیں جن کی تعداد کا بس اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ کائنات کا جو حصہ اب تک دریافت ہوچکا، وہ ایک فیصد کا ہزارواں حصہ بھی نہیں بنتا۔ مگر یہ بھی کس قدر زیادہ ہے، اِس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ اس کا درمیان سے ہر ایک سائیڈ کا فاصلہ 93 بِلّین نوری سال (93billion light year) ہے۔
اس دریافت شدہ حصّے سے آگے کیا ہے، ہم نہیں جانتے۔ نہ شاید کبھی جان پائیں۔ چونکہ اس observable universe سے دور روشنی کو ہماری زمین تک پہنچنے کے لیے خود ہماری زمین کی کل عمر سے بھی کہیں زیادہ وقت درکار ہوگا۔ چنانچہ یہ کسی طور ممکن نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ کائنات ہر لمحہ مزید پھیل رہی ہےــــــ کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکون۔
لہٰذا جو فاصلہ آج ہم ایک نوری سال سمجھ رہے ہیں وہ اگلے چند لمحوں میں دو گنا ہوچکا ہوگا۔ قابل مشاہدہ کائنات سے آگے کی کائنات ہمارے تصور کی ہر ممکنہ حد سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ theory of cosmic inflation جو ڈاکٹر Alan Guth نے پیش کی، اس کے مطابق اصل کائنات دریافت شدہ کائنات کے مقابلہ میں 150 sextillion time زیادہ ہے۔
یہ تفصیل پڑھ کر رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ الفاظ بھی یاد کیجیے جو14 سو برس پیشتر اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا کروائے تھےــــ کہ سات آسمانوں کی حیثیت خدا کے اقتدار کی کرسی مقابلے میں ایسی ہے جیسے ایک بیانان زمین میں کوئی چھلّا (ring) پڑا ہو،(السلسلۃ الصحیحۃ،رقم109)۔ بس پاک ہے وہ ذات جس کے قبضے میں زمین و آسمان کی بادشاہی ہے۔ کچھ اندازہ ہوا آپ کو کہ جب ہم اللہ اکبر کہتے ہیں تو اصلاً اس کا مطلب کیا ہے؟
ناقابلِ تصور بات ہے کہ جس ہستی نے ایسی وسیع کائنات بنائی، وہ داستانِ حیات کو یہیں ختم کر دے۔ کتابِ مقدّس کے اوراق پکار پکار کر کہتے ہیں کہ نہیں، بلکہ یہ کہ تُم لوگ ایک دارالامتحان میں قید کیے گئے ہو تاکہ ہم دیکھیں کہ کون ٹریلین آف ایئرز پر مشتمل اُس لافانی حیات کا وارث بنتا ہے۔ انسانی دماغ کے کُل 5 سے 7 فیصد سیلز استعمال ہوتے ہیں ایک لائف ٹائم میں۔ مقامِ فکر ہے کہ باقی کے 90 فیصد سیلز آخر کیوں بنائے گئے؟ اس دنیا کی زندگی ایک عارضی پڑاؤ ہے۔ خالق کا پیغام یہ ہے کہ قبر کے ایئر پورٹ سے ہم لوگ جو اڑان بھرتے ہیں تو لامحدود کائنات میں رکھی بے حد و حساب زندگی کی جانب کُوچ کر جاتے ہیں۔ لازم ہے کہ اس خدا سے اپنا رشتہ محبت کی بنا پر استوار کیا جائے، نہ کہ خوف و دہشت کو پیمانہ بنایا جائے۔ اسے ہماری عبادات اور نیکیوں کی ہرگز کوئی حاجت نہیں۔ وہ مالک الملک اتنا بڑا اور طاقتور ہے کہ یہ فلکی اجسام اس کی نظر میں معمولی کھلونوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وطنِ عزیز کے ایک معروف سکالر نے کیا خوب کہا:
”خدا سے آپ نے کیا ڈرنا؟ کوئی صورت نہیں بنتی خدا سے ڈرنے کی کہ آپ کا اُس کے ساتھ کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا۔ تقویٰ کا صرف ایک مطلب ہےـــ کہ خدا سے محبت میں ایسے کاموں سے دور رہو جو تمہیں اس سے دور کر دیں۔ اس کے علاوہ تقویٰ کا اور کوئی مطلب نہیں۔ اگر تم یہ کہو کہ میں خدا سے بہت ڈرتا ہوں تو یہ تمہارا اپنا guilt ہے۔ اللہ تو اتنا بڑا، غالب اور محیط ہے کہ وہ سورج کو چراغ کہتا ہے۔ ڈیڑھ سو میل لمبے asteroid کو پتھر کہتا ہےــــ کہ چھوٹا سا روڑا پھینک دوں تم پر تو تم ختم ہوجاؤ۔ اتنے بڑے اللہ کے ساتھ وحشت کا کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا، خوف کا نہیں ہوسکتا۔ مر جاؤ گے ڈر ڈر کر۔ بس محبت کرو اس سے۔ انس رکھو اللہ سے۔ پیار کرو۔ وہ یہی چاہتا ہے۔”
اس عارضی قیام کو کُل حیات سمجھ بیٹھنا ایک بڑی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ حضرتِ اقبالؒ نے اس پیغام کو یوں sum up کیا ہے:
موت کے ہاتھوں سے مِٹ سکتا اگر نقشِ حیات
عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظامِ کائنات
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوام زندگی