رحمت کا فرشتہ ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کی سورۃ الکہف کے مطابق ایک سفر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی ایک ہستی سے ہوتی ہے۔ احادیث میں اس ہستی کا نام خضر بیان ہوا ہے۔ اس باب میں اختلاف ہے کہ آیا خضر علیہ السلام کوئی نبی تھے یا فرشتے۔ تاہم ان کے جو کام سورۃ الکہف میں بیان ہوئے ہیں؛ خاص طور پر ایک بچے کو قتل کر دینا اور یتیموں کی کشتی کو نقصان پہنچانا، ان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تکوینی نوعیت کے کام تھے جو ایک فرشتہ ہی کرسکتا ہے۔
اس ہستی کے تعارف میں اللہ تعالیٰ کے الفاظ قرآن مجید میں اس طرح نقل ہوئے ہیں:
’’انھوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو وہاں پایا جسے ہم نے خاص اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنے پاس سے اُس کو ایک خاص علم عطا فرمایا تھا‘‘،(الکہف18:65)
حضرت خضر کا جو بنیادی وصف اس آیت میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے نواز رکھا تھا۔ مگر دوسری طرف جب ان کے کام سامنے آئے تو بظاہر ان میں رحمت کا نہیں بلکہ اچھوں اور معصوموں سے برائی اور بروں سے بھلائی کا ظہور نظر آرہا تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ نے ان پر سوالات کیے جس کے جواب میں انھوں نے ان واقعات کی اصل حکمت کو جب کھولا تو معلوم ہوا کہ ہر موقع پر دراصل خدا کی رحمت ہی کا ظہور ہوا تھا۔
اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں خدا کی رحمت اور رحمت کے فرشتے ضروری نہیں کہ ہمیشہ اچھے حالات میں سامنے آئیں۔ بعض اوقات رحمت کا فرشتہ مصیبت لے کر آتا ہے، مگر دراصل وہ رحمت کا ظہور ہی ہوتا ہے۔ بندہ اگر مومن ہے تو پھر یہ واقعہ اسے یقین دلاتا ہے کہ زندگی میں جب بھی کچھ برا ہوتا ہے تو وہ رحمت کا فرشتہ کرتا ہے، عذاب کا فرشتہ نہیں۔ حضرت موسیٰ پر یہ حقیقت اسی دنیا میں کھول دی گئی۔ عام لوگوں پر یہ حقیقت روزِ قیامت کھولی جائے گی۔