گرمی، سردی اور ایمان ۔ ابویحییٰ
کچھ عرصے قبل ایک صاحب نے اپنا ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ وہ سخت گرمیوں کے دنوں میں بال کٹوانے گئے۔ دکان میں عام طور پر اے سی چلتا تھا، اس لیے اس دکان میں باہر کی تازہ ہوا کا انتظام نہ تھا۔ مگر اس وقت لائٹ چلی گئی اور کسی وجہ سے جنریٹر بھی نہیں چل رہا تھا۔ بال کٹوانے کے عمل میں ایک کپڑا اضافی طور پر قمیض پر ڈال دیا جاتا ہے تاکہ کپڑے بال گرنے سے خراب نہ ہوں۔ ان کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بال کٹواتے ہوئے انھیں گرمی کے مارے شدید پسینے آنے لگے۔ عین اسی وقت انھیں نیشنل جیوگرافک پر دیکھا ہوا ایک ٹی وی پروگرام یا دآیا جس میں یہ تجربہ کیا گیا تھا کہ انتہائی سرد کمرے میں پہلے کچھ لوگوں کو بٹھایا گیا اور تھوڑی ہی دیر میں ان کے لیے وہاں بیٹھنا ناممکن ہوگیا تھا۔ پھر انھی لوگوں کو کچھ دنوں بعد اسی کمرے میں اس ہدایت کے ساتھ بٹھایا گیا کہ وہ آنکھیں بند کرکے یہ سوچتے رہیں کہ یہاں بہت شدید گرمی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ بہت دیر تک اُس شدید ٹھنڈ کو برداشت کرنے کے قابل ہوگئے۔
انھوں نے اس وقت اسی تجربے کو خود پر دہرانے کا فیصلہ کیا اور آنکھیں بند کرکے یہ سوچنے لگے کہ یہاں شدید ٹھنڈ ہورہی ہے اور یہ سردی ان کے رگ و پے میں سرائیت کرتی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے چند منٹ کے اندر ہی ان کو گرمی لگنا بند ہوگئی۔ پسینے بہنے رک گئے اور وہ اطمینان کے ساتھ بال کٹوا کر گھر واپس آئے۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ انسانی ذہن میں اپنے ماحول اور اس سے پیدا ہونے والے احساسات اور جذبات پر قابو پانے کی کتنی غیرمعمولی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اس صلاحیت کو بہت سی جگہوں پر استعمال کیا جاسکتا ہے، مگر اس کا سب سے مفید استعمال یہ ہے کہ اسے جنت کے حصول کی جدوجہد میں استعمال کیا جائے۔
جنت میں جانے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان ماحول میں پائی جانے والی ساری ترغیبات کے باوجود نیکی کے راستے پر قائم رہے۔ وہ اپنی شخصیت میں موجود تعصبات سے اوپر اٹھ کر صرف اس لیے حق کو قبول کرے کہ اس کے بغیر قیامت کی نجات ممکن نہیں ہے۔ وہ اردگرد پھیلی ہوئی مایوسی کے سمندر میں مثبت سوچ کا جزیرہ اپنے ذہن میں بنائے اور اسی پر بسیرا کرلے۔ وہ شب و روز مادی دنیا میں جینے کے باوجود آخرت کی نظر نہ آنے والی دنیا کا تصور خود پر حاوی کرلے۔ وہ مخلوقات میں زندگی گزارنے کے باوجود نظر نہ آنے والے خالق کو ذہن کی طاقت سے دیکھنے لگے۔
ایسا کرنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان کا ایمان قرآن مجید سے بنا ہو۔ قرآن مجید وہ واحد جگہ ہے جہاں مخلوق کا نہیں خالق کا ذکر ہے، جہاں دنیا نہیں آخرت کی اہمیت بتائی جاتی ہے، جہاں نیکی کے اصل معیارات متعین طور پر طے کر دیے گئے ہیں۔ جہاں پیغمبروں کی داستانیں منفی لوگوں کے درمیان مثبت بن کر رہنا سکھاتی ہیں۔ جہاں اہل کفر کی طرح تعصبات کے اندھیرے میں جینے کے بجائے ہدایت کی روشنی میں آنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
جو لوگ قرآن مجید کو اس طرح پالیتے ہیں، قرآن ان کے لیے سرتاسر رہنمائی بن جاتا ہے۔ ایسے لوگ جن کا ایمان قرآن سے بنتا ہے وہ جب نماز پڑھتے ہیں اس میں خدا کے سامنے خشوع اختیار کرتے ہیں۔ وہ اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ آخرت کے لیے خرچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مذہبی تعصبات، فرقہ وارانہ وابستگی اور مذہبی و سیاسی انتہا پسندی سے اٹھ کر ہمیشہ سچائی کی تلاش کرتے اور اسی کا ساتھ دیتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جن کا ایمان پختہ اور عمل صالح ہوتا ہے۔ دنیا میں ایسے لوگ سراپا خیر ہوتے ہیں اور آخرت کا سارا اجر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔