فطرت کی سزا جزا ۔ ابویحییٰ
مسلمانوں کے پڑھے لکھے لوگوں کے ذہن میں ایک سوال اکثر پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں اکثریت ہمیشہ ان لوگوں کی رہی ہے جن لوگوں تک اللہ کے رسولوں کی دعوت نہیں پہنچی۔ ایسے لوگوں کی سزا جزا کس بنیاد پر ہوگی؟
قرآن مجید اس سوال کا ایک متعین جواب دیتا ہے۔ وہ یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کو اس ڈھنگ پر تخلیق کیا ہے کہ لوح دل پر فطرت کے قلم سے خیر و شر کی پوری لغت ثبت کر کے ہی انسان کو اس دنیا میں بھیجا جاتا ہے، (الشمس8:)۔ انسان دل کے آئینے پر حرص و ہوس کا زنگ چڑھا لے تو دوسری بات ہے وگرنہ اپنے اچھے برے روپ کی واضح تصویر وہ جب چاہے اس آئینے میں دیکھ سکتا ہے۔
بات صرف اسی فطری ہدایت تک محدود نہیں جو خیر و شر کا واضح تصور انسان کو دیتی ہے بلکہ وجود انسانی میں نفس ملامت گیر یا ضمیر کی شکل میں وہ جج اور قاضی بٹھا دیا گیا ہے جو ہر خیر پر اسے شاباش دیتا ہے اور ہر برائی کے ارتکاب پر اسے کچوکے لگاتا ہے(القیامہ:2)۔ خیر و شر کا تصور اور ضمیر کی عدالت اتنی طاقتور چیز ہے کہ اسی نے انسانی سماج کو عدالت، پولیس اور کچہری کا تصور عطا کیا ہے۔ انسان اسی کی بنیاد پر چاہتے ہیں کہ معاشرے میں اگر کوئی کسی پر ظلم کرے تو اس ظلم کا بدلہ لیا جائے۔ ظالم کو سزا ملے اور مظلوم کو انصاف دلایا جائے۔
ٹھیک اسی اصول کی روشنی میں انسان اپنے معاشروں میں جزا کا ایک نظام قائم کرتے ہیں اور اس کی خلاف ورزی کو بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ مزدور کو مزدوری دی جاتی ہے اور اسے احسان نہیں سمجھا جاتا۔ ملازم کی تنخواہ اس کا ناقابل انکار حق سمجھا جاتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دینے والوں کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ سزا کی طرح جزا کے اس اصول کو بھی دنیا کے تمام معاشرے ہمیشہ مانتے رہے ہیں۔
سزا و جزا کا یہ نظام جو فطرت میں موجود خیر و شر کے تصور اور ضمیر کی عدالت سے اٹھتا ہے، معاشرے میں ہر جگہ اپنی حیثیت منواتا ہے۔ تاہم ایک اور ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں مکمل انصاف ملنا اکثر حالات میں ممکن نہیں ہوتا۔ ایک شخص اگر دس انسانوں کو مار ڈالے تو زیادہ سے زیادہ اس کی جان ایک دفعہ لی جاسکتی ہے۔ مگر دس جانوں کا بدلہ ایک جان کبھی نہیں ہوسکتی۔ بات دس جانوں ہی کی نہیں بلکہ دس خاندانوں کی بربادی کی ہوتی ہے۔ اس کا حساب کیسے ممکن ہے۔
اسی طرح ایک شخص جو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے اپنی جان قربان کر دے۔ اپنی جان دے کر کئی اور قیمتی جانیں بچالے۔ کوئی اعزاز، کوئی ایوارڈ اور کوئی انعام اس کا بدلہ نہیں ہوسکتا۔ انسانی دنیا کی یہی محدودیت پکار پکار کر اعلان کرتی ہے کہ حتمی اور کامل سزا و جزا کا ایک دن ضرور آئے گا۔ جس طرح ضمیر اور اس کی طرف سے دی گئی فطری سزا و جزا کا انکار کوئی صاحب ہوش نہیں کرسکتا، ٹھیک اسی طرح قیامت کے دن کے حتمی انصاف کا انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ جس طرح انسانی عدالتوں کا اخلاقی جواز اور ضرورت ناقابل تردید ہے اسی طرح اس آنے والے فیصلے کے دن کا ہونا یقینی ہے۔
یوم آخرت کا یہ دن رسولوں کے مخاطبین کی سزا جزا کا بھی حتمی دن ہوگا اور اسی طرح ان لوگوں کی پکڑ اور ثواب کا بھی دن ہوگا جن تک رسولوں کی دعوت نہیں پہنچی۔ ان کا فیصلہ فطرت انسانی میں موجود ان حقائق کی بنیاد پر ہوگا جن کی بنیاد پر ان کا ضمیر ساری زندگی سزا و جزا پر متنبہ کرتا رہا۔ مگر وہ اپنے ضمیر کو دھوکہ دیتے رہے۔ وہ حرص و ہوس کے اسیر رہے۔ خواہش و تعصب کی پیروی کرتے رہے۔ نفرت اور مفاد کی زندگی جیتے رہے۔
ایسے تما م لوگوں پر ان کی فطرت ہی گواہی بن جائے گی۔ کیونکہ ہدایت کی جو روشنی تفصیل اور جزئیات میں رسولوں کے پاس تھی، وہ کلیات اور اجمال کی حد تک ان کی فطرت میں بھی تھی۔ انہیں اس کی روشنی میں اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا۔