میں اور وہ ۔ عاقب اشعر
وہ بہت طاقتور ہے بہت زیادہ۔۔۔۔ اُس کے بازو کی مچھلیاں ہمہ وقت پھولی رہتی ہیں۔ اُس کی چھاتی چوڑی اور مضبوط ہے، قد مجھ سے کوئی تین چار فُٹ زیادہ۔۔۔ دانت نکیلے اور بے حد تیز ہیں۔۔۔ پورا جسم بالوں سے بھرا ہے اور اُس کے انگ انگ سے بدبو کے بھبھکے اُٹھتے ہیں۔۔۔۔ اُسے جسمانی طور پر تو مجھ پر برتری حاصل ہے ہی، وہ انتہائی مکّار اور چالباز بھی ہے۔۔۔۔ روز اُس سے جنگ ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات دِن میں کئی کئی بار۔۔۔ وہ مجھے سر تک بلند کر کے پٹخ دیتا ہے۔۔۔ میرا جوڑ جوڑ دُکھنے لگتا ہے تو اپنے نوکیلے دانتوں سے میرا جسم جگہ جگہ سے اُدھیڑ دیتا ہے۔۔۔ میری رگوں سے خون تک نچوڑ لینا چاہتا ہے۔۔۔ اور جَب میں ادھ مُوا ہوجاتا ہوں تو تَب وہ فاتحانہ انداز سے اپنے سینے پہ زور سے دو ہتھڑ مار کر اپنی کمین گاہ کی طرف لوٹ جاتا ہے۔۔۔ اگر میں کوئی اور حربہ استعمال کرنے کی کوشش کروں تو اُس کے پاس اس کا توڑ بھی ہوتا ہے وہ بہت چالاک ہے میں اُس سے نہیں جیت سکتا۔۔۔ شاید کبھی نہیں۔
ہاں پہلے جَب وہ اتنا طاقتور نہیں تھا تو کبھی کبھی میں اُسے ہرانے میں کامیاب ہوجاتا تھا۔۔۔ تَب وہ اگلی دفعہ نئی چال چلتا تھا لیکن پھر بھی میں اُسے چِت کر ہی لیتا تھا۔۔۔ مگر اب۔۔۔۔ اب نہیں۔۔۔ اب اُس سے لڑتے لڑتے میں ہانپ جاتا ہوں وہ مجھے روئی کی طرح دُھنک کر رکھ دیتا ہے۔۔۔
لیکن یہ میرا اپنا کیا دھرا ہے وہ کبھی اتنا طاقتور نہیں تھا۔۔۔ پہلے پہلے تو بالکل نحیف بدن اور ڈرپوک ہوتا تھا۔۔۔ چالباز تب بھی تھا مگر طاقت میں کم ہونے کی وجہ سے میرے سامنے اِس کی ایک نہ چلتی تھی۔۔۔ لیکن پھر میں نے خود اِس کی طرف سے غفلت شروع کر دی۔۔۔ صبح و شام اِس کی من پسند خوراک اسے بہم پہنچانے لگا۔ خواہشوں کی بے لگام تکمیل کر کے۔۔۔۔ قلب و نظر کو آوارہ چھوڑ کے۔۔۔۔۔ خود کو غصے اور جذبات کے حوالے کر کے۔۔۔۔۔ جب اِسے وافر مقدار میں اپنی خوراک مِلنے لگی تو یہ طاقت پکڑتا گیا۔۔۔ میں نے کوئی دھیان نہ دیا۔۔۔ یہ سَرکَش اور مُنہ زور ہوگیا۔۔۔ میں نے پروا نہ کی اور کرتے کرتے آج کے دِن یہ اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ اِس کے سامنے اب میں بے بَس و لاچار ہوں۔۔۔۔ اِس نے مجھے چاروں خانے چِت کیے رَکھا ہے۔۔۔
لیکن نہیں میں نے اِس کی غلامی تسلیم نہیں کرنی۔۔۔ ہمت نہیں ہارنی۔۔ ۔شکست تسلیم نہیں کرنی کسی بھی صورت۔۔۔ میں نے ہر روز یہ جنگ لڑنی ہے۔۔۔ بھَلے میں روز ہی اِس سے پٹوں مگر اِس کے سامنے سرنڈر نہیں کرنا۔۔۔ انشاء اللہ، ایک دِن میری فتح ضرور ہوگی اور یہ موذی اپنی پرانی حالت کو لوٹ جائے گا۔۔۔۔ کیونکہ اَب میں کفن باندھ کے میدان میں اتر آیا ہوں، یہ جنگ موت تَک ایسے ہی جاری رہے گی۔
لیکن یہ جنگ سَب سے مُشکل جنگ ہے۔۔۔۔ یہ اپنے ساتھ جنگ ہے۔۔۔۔ نَفس کے عفریت کی جبلّی خصلتوں کو سدھارنے کی جنگ ہے۔۔۔ اپنے ہی مادی وجود کی سرکش خواہشات پر قابو پانا کیسا ہے اب جا کر پتا چلا۔۔۔۔ اب سمجھ آئی ہے کہ۔۔۔ نفس کے ساتھ جہاد کو جہاد اکبر کا نام کیوں دیا گیا۔۔۔
بس ربِ کائنات سے دُعا ہے کہ ہمارے اندر جاری اِس جنگ میں ہماری مدد فرمائے۔۔۔ آمین۔