بچوں کی تربیت میں پانچ احتیاطیں ۔ شفقت علی
بچوں کی تربیت نہایت حساس اور احتیاط طلب معاملہ ہے۔ یہ معاملہ اس وقت بگڑ جاتا ہے جب ہم والدین بے احتیاطی اپناتے ہیں۔ یہ بے احتیاطی کیا ہے، کیسے وقوع پذیر ہوتی ہے اور اِس کا سدباب کیا ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ کانشیئس بنیں، اوور کانشیئس نہیں:
ہمارے ہاں زیادہ تر والدین دو طرح کے ہوتے ہیں: پہلے بچوں کی تربیت سے لاپرواہی برتنے والے (no conscious) اور دوسرے حد سے زیادہ پروا کرنے والے (over conscious)۔ لاپرواہی برتنے والے والدین اپنے بچوں کی مادی ضروریات تو پوری کر دیتے ہیں مگر اپنی حد سے زیادہ مصروفیات کی بنا پر اُن کی تربیت سے غافل رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں یہ کام مہنگے سکولوں کا ہے جن میں ہمارا بچہ پڑھ رہا ہے۔ دوسری قسم کے والدین وہ ہیں جو بچوں کی تربیت کو دردِ سر بنا لیتے ہیں اور خود بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ایسے والدین بچوں سے غیر حقیقی توقعات قائم کرلیتے ہیں اور اپنے بچوں کا مقابلہ دوسرے بچوں سے کرتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف والدین بلکہ بچوں کی صحت کے لیے بھی خطرناک ہے۔ان دو رویوں کا حل فقط اعتدال پسندی اور حقیقت پسندی ہے۔
2۔ رویہ فرینڈلی رکھیں، فرینکلی نہیں:
ہمارے ہاں والدین یا تو بچوں سے معاملہ کرتے ہوئے بالکل روایتی طریقہ استعمال کرتے ہیں یعنی سختی و جبر یا پھر بہت ہی لچک دے جاتے ہیں یعنی فرینک (frank) ہوجاتے ہیں۔ پہلا رویہ بچوں میں ضد اور بغاوت پیدا کرتا ہے تو دوسرا اُن کی نظر میں آپ کا وقار پامال کر دیتا ہے۔ یہاں بھی ضرورت ہے کہ اعتدال پر مبنی رویہ اپنایا جائے۔
3۔ غیر مستقل مزاجی سے بچیں:
بچوں کی تربیت دنوں کا نہیں بلکہ سالوں کا معاملہ ہے۔ کیسے اور کون سی خوبیاں بچے میں کب پیدا کرنی ہیں، کس برائی سے بچے کو کیسے بچانا ہے اس کے لیے مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہاں غیر مستقل مزاجی سارے تربیتی عمل کو برباد کر دیتی ہے۔
4۔ گفتار نہیں، کردار سے سکھائیں:
تربیت تقریر کرنے یا لیکچر دینے کا نام نہیں بلکہ اپنے کردار سے بچوں کو متاثر کرنے کا نام ہے یعنی بچے وہی کچھ سیکھتے ہیں جو آپ کرتے ہیں نہ کہ وہ جو آپ کہتے ہیں۔ اگر آپ کوئی عادت بچوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں یا کسی بری عادت سے اُنہیں بچانا چاہتے ہیں تو اُسے اپنے کردار کے ذریعے سکھائیں نہ کہ محض حکم نامے سے۔
5۔ پہلے سمجھیں پھر سمجھائیں:
ہم والدین بچوں کے احساسات، جذبات اور انفرادی اختلافات جانے بغیر بچوں سے معاملہ کرتے ہیں جو تربیت کے عمل میں بہت خطرناک ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تربیت سمجھانے کا نام ہے یا نصیحتیں کرنے کا نام ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تربیت سمجھانے سے زیادہ بچے کو سمجھنے کا عمل ہے۔ جب آپ بچے کو سمجھ جاتے ہیں، اُس کی بات کو غور سے سننا شروع کر دیتے ہیں تو تربیت کا آدھا عمل پورا ہوجاتا ہے۔