آخری چالان ۔ خطیب احمد
میں لاہور ہال روڈ سے براستہ مال روڈ پنجاب یونیورسٹی جا رہا تھا۔ درجہ حرارت 45 تھا اور دن کے 2 بجے تھے سڑک پر رش بہت کم تھا۔ جب کینال روڈ کے اوپر بنے ٹریفک سگنل پر پہنچا تو سگنل سرخ تھا۔ اور سورج کی تپش مجھے جلائے جا رہی تھی۔ میں نے قانون کی خلاف ورزی کی کہ میں بے ہوش ہوکر گرنے ہی والا تھا اور آگے چھاؤں میں کھڑے ٹریفک پولیس اہلکار کے پاس جا کر خود ہی بائیک کھڑی کر دی۔ اسنے مجھے نہیں روکا تھا۔
میں نے اس کے پاس چھاؤں میں کھڑے ہو کر کہا بھائی میں نے ابھی ٹریفک سگنل توڑا ہے میرے پاس بائیک کے کاغذات بھی نہیں اگلی نمبر پلیٹ بھی نہیں ہے اور پچھلی نمبر پلیٹ غیر نمونہ ہے میری سپیڈ بھی آتے ہوئے حد رفتار سے زیادہ تھی میرے پاس لائسنس بھی نہیں ہے تو آپ سارا حساب لگا کر میرا چالان کیجئے۔
اسے جیسے میری بات پر یقین نہیں آیا یا لگا میں مذاق کر رہا ہوں تو کہتا سر آپ مذاق کر رہے ہیں یا میرا کوئی امتحان مقصود ہے؟ میں نے کہا بالکل ایسا نہیں آپ کے سامنے ٹریفک سگنل توڑا ہے جو باقی بتایا آپ خود دیکھ لیں۔ خیر تھوڑی سی گفت و شنید کے بعد جب اسے یقین ہوگیا کہ میں کوئی مذاق نہیں کر رہا نہ اسے کسی طرح آزما رہا ہوں تو کہتا سوری بھائی میں آپ کا چالان بالکل نہیں کروں گا۔
میں نے کہا کیوں؟ تو کہتا میری 11 سالہ سروس میں آپ پہلے شہری ہیں جو بنا روکے خود رک کر اپنی غلطیاں بتا کر چالان کروانے کی ضد کر رہے ہیں ورنہ جسے روکیں وہ اپنی غلطی مانتا نہیں یا کسی کی فون پر سفارش کروانے کی کوشش کرتا ہے یا کہتا ہے اب چھوڑ دیں آئندہ خیال رکھوں گا۔ لہٰذا کچھ بھی ہوجائے میں آپ کا چالان نہیں کروں گا۔ خیر اس نے میرا چالان نہیں کیا اور کہتا کچھ دیر ادھر بیٹھ جائیں ابھی دھوپ بہت ہے۔ اور پھر ادھر بیٹھے ہی ایک دم میری آنکھوں سے پانی کا ایک سونامی چھلک آیا۔ جیسے جسم میں جان ہی نہیں۔
مجھے اس وقت خیال یہ آیا تھا کہ میں نے اپنی گزشتہ عمر میں ایک بار بھی اس طرح مالک ارض و سما کے سامنے تو خود کو دل سے سرنڈر نہیں کیا۔ اس کے حضور وہ گناہ تو نہیں گنوائے جو میں شب و روز چھپ کر یا علانیہ کرتا ہوں۔ اسے تو آج تک نہیں کہا کہ میرے مالک میں آج آپ کے سامنے آگیا ہوں اور اقرار کرتا ہوں میری تنہائی پاک نہیں یا جیسا میں لوگوں کو دکھتا ہوں میں تو ویسا نہیں ہوں میں نے اکثر نماز بھی نہیں پڑھی، زنا کیا، جوا کھیلا، زکوٰۃ نہ دی، رشتہ داروں کا حق کھایا، اپنے ماتحتوں پر ظلم کیا، مزدور کو پوری اجرت نہ دی، بیوی بچوں کو استطاعت کے باوجود بہت سی جائز ضرورتوں سے محروم رکھا، والدین کا دل دکھایا اور سب سے بڑھ کر آپ کی قائم کردہ حدوں کو توڑا۔ اور ایک آپ ہیں مجھے آج تک نہیں روکا میرے گناہوں پر پردہ ڈالے رکھا مجھے رسوا نہ کیا نہ میرا رزق روکا۔
اسے تو نہیں کہا کہ مجھے میری زندگی میں جو چاہے سزا دے لیجیے اور آپ کے بارے میں تو جو سنا یا پڑھا ہے وہ یہی ہے کہ آپ کی رحمت آپ کے غصے پر حاوی ہے۔ تو میرے مالک آپ کے ایک غلام کا بچہ غلام ابن غلام اپنی سرکشی سے توبہ کرتا ہے اور آج سے آپ کے حکموں پر سر بسجود ہونے کی پوری کوشش کرے گا۔ میرے اس سفر میں اب کبھی میرا ہاتھ نہ چھوڑیے گا۔ مجھے معاف فرما دیجیے ناں۔ تو بھلا وہ خدا جو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے وہ معاف نہیں کرے گا؟ وہ ضرور تمام گناہ معاف فرما دے گا اور اسی وقت فرشتوں کو حکم کرے گا اس کے سب گناہ مٹا دو اور جو معاملات حقوق العباد کے ہیں ان بندوں کے بھی دل اپنے اس گناہگار بندے کے لیے نرم کر دے گا۔ اور کہے گا جا میرے بندوں سے بھی معافی مانگ لے میں تمہیں دنیا و آخرت میں کوئی سزا نہیں دوں گا۔
اللہ کی کچھ صفات اس کے بندوں میں بھی ہیں شاید اللہ کی معاف کرنے والی صفت ہی اس بندہ مومن پولیس اہلکار پر بھی غالب آگئی۔
تو آئیے زندگی کے اس ”آخری چالان“ جسے دنیا موت یا ڈیتھ کے نام سے جانتی ہے، کے کٹ جانے سے پہلے ہی خود کو اس خدائے واحد و یکتا کے سامنے پیش کر دیں۔ برسوں سے گناہوں کی شاہراہ پر چلتے قدم خود روک لیں کہ جب اس کے بھیجے ہوئے اہلکار حضرت عزرائیل علیہ السلام نے ہمیں روک کر ہمارا آخری چالان کر دیا اور ہمیں خدا کے سامنے پیش کر دیا تو ہماری معافی منتیں اور سفارشیں کسی کام نہ آئیں گی۔ پھر عدل ہوگا وہ چاہے تو جسے معاف کرے چاہے تو جسے مرضی جہنم کی گہری کھائیوں میں پھینک دے۔ آج موقع ہے اس کی رحمت کو جوش دلا کر اس سے دوستی کرنے کا جو کسی بھی وقت چھن جائے گا اور ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔