مضامین قرآن (71) اخلاقی طور پر مطلوب و غیر مطلوب رویے : صدق و کذب ۔ ابویحییٰ
اخلاقی مطالبات کی بحث کا آغاز ہم نے خالق کے حقوق سے کیا تھا۔ پھر مخلوق کے حقوق زیر بحث لائے گئے تھے۔ ان میں پہلے مرحلے پر ہم ان حقوق کو زیر بحث لائے جن کا تعلق مختلف سماجی طبقات اور انسانی تعلقات سے تھا۔ یہ وہ حقوق ہیں جن کی ادائیگی کے معاملے میں عام طور پر انسانوں سے کوتاہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد اخلاقی طور پر مطلوب اور غیر مطلوب رویوں کا بیان شروع کیا گیا تھا جو ادائیگی حقوق پر براہ راست اثرات انداز ہوتے ہیں۔ ان میں پہلے ان رویوں پر بات کی گئی جو کسی خاص عمل کو نہیں بلکہ انسانی کردار کی کسی جامع صفت کو بیان کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں عدل و ظلم، معروف و منکر، حفظ فروج و فواحش اور عہد و امانت پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ آخر میں اب ان اخلاقی صفات کو زیر بحث لایا جارہا ہے جو متعین طور پر انسانی کردار کی کسی خاص خوبی یا خامی کو بیان کرتے ہیں۔ جامع صفات کی طرح ان صفات سے بھی جنم لینے والے اعمال پر معاشرے کی تمام تر خیر و فلاح کا انحصار ہوتا ہے اور انھی پر کسی فرد کی اخروی فلاح منحصر ہوتی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں ان صفات پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے۔
صدق و کذب
سچا بولنا انسانی کردار کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ہے۔ اس طرح جھوٹ بولنا انسان کی پست کردار ی کی ایک دلیل ہے۔ صدق یا سچائی اپنی ابتدائی تعریف کے لحاظ سے کسی حقیقت کو حقیقت کے طور پر بیان کرنے کا نام ہے۔ مگر قرآن مجید نے کئی مقامات مثلاً (البقرہ177:2) میں اس کو جس طرح استعمال کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کے نزدیک یہ دل کی دنیا میں جنم لینے والے ایمان سے لے کر خارج کی دنیا میں پورے کیے گئے اخلاقی مطالبات سب کا احاطہ کرلیتا ہے۔ یوں گویا یہ کسی سچائی کو دل سے ماننے، زبان سے اس کا اقرار کرنے اور پھر سیرت و عمل کا اس اقرار کے مطابق ڈھل کر اسی کردار کو جنم دینے کا نام ہے جو دل سے مانی گئی سچائی کے مطابق ہو۔ یہی ایک صادق انسان کی اصل تعریف ہے کہ وہ جس حقیقت کا اقرار کرتا ہے، دل سے اسے مانتا ہے اور عمل سے اس کی تائید کر دیتا ہے۔ یہ مقام دین کا وہ جمال و کمال ہے جو فلاح اخروی کو لازمی کر دیتا ہے،(المائدہ119:5)۔
اس کے برعکس کذب یا جھوٹ ابتدائی طور غلط بیانی کا نام ہے۔ مگر جب یہ جھوٹ دل کی گہرائیوں میں جڑ پکڑ لے تو نفاق کے اس مرض کو جنم دیتا ہے جس میں انسان مجبوراً سچ بولتا لیکن اس کا عمل یہ بتانے کے لیے کافی ہوتا ہے کہ وہ دراصل ایک جھوٹا انسان ہے (المنافقون1:63)۔ یہ لوگ اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے قسمیں بھی کھاتے ہیں، مگر ان کی قسمیں بھی جھوٹی ہوتی ہیں۔ ایسا انسان سچائی کو جانتے ہوئے اور سچ سمجھنے کے باوجود دل سے اس کا منکر ہوتا ہے، زبان سے بھی اس کی تردید کرتا ہے اور عمل سے بھی سچائی کے تقاضوں کو پامال کرتا ہے۔ چنانچہ کذب غلط بیانی سے شروع ہوکر انسان کو کفر و نفاق کی پستی میں لے جاتا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ آخرت کی ہلاکت اور تباہی ہے۔
جھوٹ کی اس خرابی اور صدق و سچائی کی اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید نے بہت سے مقامات پر صداقت کو اہل ایمان کے ایک لازمی وصف کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہاں تک کہ اسے سچے ایمان کے متبادل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے،(التوبہ119:9)۔
صدق کا اگلا مقام : اعتراف حق
اس دنیا میں سچ بولنا جتنا مشکل کام ہے، اس سے کہیں زیادہ مشکل کام کسی سچائی کا اقرار کرنا اور اس کا ساتھ دینا ہے۔ سچائی ہمیشہ ہماری خواہشات، تعصبات اور رجحانات کے مطابق نہیں ہوتی۔ ایسی کوئی سچائی اگر کبھی ہمارے سامنے آجائے تو اس حق کا اقرار کرنے اور اس ساتھ نبھانے کا حوصلہ کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ مگر جو لوگ یہ کرلیں وہ عام انسانوں سے بہت بلند مقام پر فائز ہوجاتے ہیں۔ خاص کر جب حضرات انبیا علیہم السلام دنیا میں تشریف لاتے ہیں تو حق و باطل کا ایک معرکہ بپا ہوجاتا ہے۔ اس معرکے میں حق کے پاس دلیل کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔جبکہ باطل کے پاس سارا مادی زور اور سماجی اثر ہوتا ہے۔
مگر کچھ بلند حوصلہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی مانی ہوئی چیزوں کو دلیل کی بنیاد پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اپنے تعصبات کو سچ کے خلاف جان کر ان سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔ حق کو صرف اس کے حق ہونے کی بنیاد پر قبول کرلیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر مشکل میں پہلے مرحلے میں حق کی تصدیق اور تائید کرتے ہیں اور پھر زندگی کے ہر مرحلے میں حق کا ساتھ نبھاتے ہیں۔ مگر اپنے مفادات، تعصبات اور خواہشات کے اسیر لوگ حق کا انکار کر دیتے ہیں۔ وہ اس کی مخالفت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ کھل کر حق کا انکار نہ کرسکیں تو ان کا کفر، نفاق کا چولہ پہن کر حق کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر ایسے ہر رویے کا انجام جہنم کی ہلاکت ہے۔
عام حالات میں بھی یہی حق پرستی اور حق کی یہی اندھی مخالفت کسی انسان کے کردار کا آخری فیصلہ کرتی ہے۔ صدّیقین حق کا اعتراف کرتے ہیں اور کھل کر حق کا ساتھ نبھاتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ جنت میں انبیا کے بعد سب سے اونچا مقام پانے کا ذریعہ ہے۔ جنت کی ابدی اور پائدار کامیابی کو حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ وہ خدا جس سے بڑھ کر اپنی بات کا کوئی سچا نہیں، وہ سچوں کو روز قیامت وہ پائدار مقام و مرتبہ(مقعد صدق، القمر55:54) عطا کرے گا جس کا اندازہ اس دنیا میں آج کوئی انسا ن نہیں کرسکتا۔ اس کے برعکس حق کو جھٹلانے والے، اس کی مخالفت کرنے والے، اس سے عناد رکھنے والے قیامت کے دن جہنم کے عذاب کے سوا اپنا کوئی ٹھکانہ نہ پائیں گے۔
قرآنی بیانات
”تم نے دیکھا نہیں اُنھیں جو اُن لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے؟ وہ نہتم میں سے ہیں، نہ اُن میں سے، اور جانتے بوجھتے اپنے اِس جھوٹ پر (کہ تمھارے ساتھ ہیں) قسمیں کھاتے ہیں۔“،(المجادلہ14:58)
”حقیقت یہ ہے کہ جو مرد اور جو عورتیں مسلمان ہیں، مومن ہیں، بندگی کرنے والے ہیں، سچے ہیں، صبر کرنے والے ہیں، اللہ کے آگے جھک کر رہنے والے ہیں، خیرات کرنے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے اُن کے لیے بھی مغفرت اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔“، (الاحزاب35:33)
”اللہ فرمائے گا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کی سچائی اُن کے کام آئے گی۔ اُن کے لیے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔“،(المائدہ119:5)
”یہ منافق جب تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ ضرور تم اُس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق بالکل جھوٹے ہیں۔“،(المنافقون1:63)
”ایمان والو، (اِن غلطیوں سے بچنا چاہتے ہو تو) اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔“،(التوبہ119:9)
”اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، وہ تم سب کو قیامت کے دن کی طرف لے جا کر رہے گا جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔ اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا کون ہوسکتا ہے۔“، (النسا87:4)
”کہہ دو کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے، اِس لیے (اپنے اِن تعصبات کو چھوڑ کر) ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو، جو (اسلام کے راستے پر) بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔“،(ال عمران95:3)
”واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اُن سب لوگوں کو آزمایا ہے جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ سو اللہ اُن لوگوں کو ضرور جانے گا جو سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی جان کر رہے گا۔“،(العنکبوت3:29)
”سچی عزت کی جگہ، بڑے صاحب اقتدار بادشاہ کے حضور میں۔“،(القمر55:54)
”ہم نے تمھیں پیدا کیا ہے تو قیامت کی تصدیق کیوں نہیں کرتے؟“،(الواقعہ57:56)
”ہاں، جو سچائی لے کر آیا اور جنھوں نے پورے دل کے ساتھ اُس کو سچ مانا، وہی عذاب سے بچنے والے ہیں۔“،(الزمر33:39)
”سو اُس دن اُن سے بڑھ کر اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا کون ہوگا جنھوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور سچائی کو جھٹلا دیا، جب کہ وہ اُن کے پاس آگئی! ایسے منکروں کا ٹھکانا کیا جہنم میں نہ ہوگا؟“،(الزمر32:39)
”اللہ کے ساتھ وفاداری صرف یہ نہیں کہ تم نے (نماز میں) اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کر لیا، بلکہ وفا داری تو اُن کی وفا داری ہے جو پورے دل سے اللہ کو مانیں اور قیامت کے دن کو مانیں اور اللہ کے فرشتوں کو مانیں اور اُس کی کتابوں کو مانیں اور اُس کے نبیوں کو مانیں اور مال کی محبت کے باوجود اُسے قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور مانگنے والوں پر اور لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں خرچ کریں، اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ اور وفاداری تو اُن کی وفاداری ہے کہ جب عہد کر بیٹھیں تو اپنے اِس عہد کو پورا کرنے والے ہوں اور خاص کراُن کی جو تنگی اور بیماری میں اور جنگ کے موقع پر ثابت قدم رہنے والے ہوں۔ یہی ہیں جو (اللہ کے ساتھ اپنے عہدِ وفا میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو فی الواقع پرہیز گار ہیں۔“،(البقرہ177:2)
”دراں حالیکہ اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اُس کی آیتوں کو جھٹلا دے؟ یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔“،(الانعام21:6)
”لیکن (انسان کو دیکھو)، اِس نے نہ تو قیامت کے اچھے انجام کو سچ مانا، نہ نماز پڑھی“، (القیامۃ31:75)
”اور اچھے انجام کو سچ مانا“،(الیل6:92)
”یہ جو بدلے کے دن کو جھٹلا رہے ہیں۔“،(المطففین11:83)
”بلکہ (تعجب ہے کہ)یہ منکر تو الٹا جھٹلا رہے ہیں“،(الانشقاق22:84)