خواتین کے قضا روزے ۔ فرح رضوان
یہ کراچی میں پڑوسن تھیں۔ جب بھی ہم، ملتان یا پشاور سے وہاں چھٹیاں گزارنے جاتے ضرور ملنے آتیں، لیکن مہمانداری کرنا چاہو تو پتہ چلتا کہ روزے سے ہیں، جب مجھے اپنے دور جاہلیت میں یہ تک پتہ نہیں تھا کہ باعمل مسلمان سنت کے طور پر پیر اور جمعرات کو نفلی روزے رکھتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ معاف فرمائے بے ضمیری کا وہ عالم کہ کسی کو نیکی کرتا دیکھ کر یہ حسرت بھی نہ جاگتی کہ ابھی نہ سہی کبھی موقع ملنے پر ہم بھی ایسا کریں گے، بس یہی خیال آتا کہ جو محنت کرتا ہے اپنے لیے کرتا ہے، اور بوڑھے لوگوں کو تو جلد ہی اللہ کے پاس جانا ہے کچھ تو لے کر جائیں گے ناں! تب پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ سب باتیں شیطان کا ہتھکنڈہ ہوتی ہیں، انسان کو نیکی سے دور بہت دور رکھنے کے لیے۔
بہرحال دوسری خاتون سے کچھ عرصہ قبل ملاقات ہوئی، جب سردیوں کی چھٹیوں میں سب دوستوں کا لنچ کا پروگرام بن گیا تو پتہ چلا کہ وہ روزے سے ہیں، چالیس سے کم عمر میں یہ ’’حرکت‘‘ انتہائی حیرت انگیز اور توجہ طلب تھی ذرا کریدنے پر پتہ چلا کہ موصوفہ کچھ سال سے سردیوں کا موسم آتے ہی قضا روزے رکھنے شروع کر دیتی ہیں اور اس وقت تک ماشاللہ اپنے تین بچوں کی ولادت کے دوران قضا کیئے گئے روزے رکھنے میں کامیاب ہوچکی تھی۔
کیونکہ رشک جائز ہے اس لیے اس پر ہم سب کو بڑا رشک اور خود پر ملال ہوا کہ ہر بار ہم لوگ پلاننگ ہی کرتے رہ جاتے ہیں، لیکن گرمیوں میں ٹھنڈا پانی اور سردیوں میں گرم گرم کافی، چائے، اور سوپ کی طلب، عادت یا چسکا آڑے آتا رہتا ہے اور یوں یہ تحفے میں ملے مختصر ترین دورانیے کے دن پر لگا کر اڑ جاتے ہیں۔ ۔ ۔ لیکن! کسی پر رشک اور خود پر ملامت یا پھر صرف پلاننگ کرنے سے کچھ ہو پاتا ہے بھلا؟ جب تک کہ نفس کے گھوڑے کو لگام ڈال کے اس بات پر عمل نہ شروع کر دیا جائے۔
پھر ایک بہت ہی پرانی دوست سے آمنا سامنا ہوگیا، یہ کافی عرصے پہلے سکھر رہا کرتی تھی یہ ایک دوست کی دوست ہے۔ ۔ ۔ بات چیت کے دوران یہ موضوع بھی نکل آیا اور پتہ چلا کہ ان محترمہ نے بھی بچوں کی ولادت اور رضاعت کے دوران قضا ہوجانے والے روزوں کا شمار کیا ہوا ہے جو کل ملا کر سال سے کچھ ہی کم ہے لیکن اللہ کی رحمت سے اس نے اپنا سفر شروع کیا ہوا ہے َ
کچھ تو بہت پرانے تعلق کی وجہ سے میں اس کو جانتی تھی کہ یہ پہلے ایسی نہیں تھی جیسی اب نظر آرہی تھی، دوسرا چالیس کے شروعاتی دور میں یہ دوڑ، آخر وجہ کیا بنی؟ اور فیملی کے ساتھ رہتے ہوئے یہ سب ممکن کیسے ہوا؟۔ ۔ ۔ اسے بہت دیر تک دلائل دینے کے بعد کہ میرے جسے انگنت لوگ بہت سی نیکیوں سے صرف اس لیے محروم رہتے ہیں کہ ہم جس ماحول میں رہتے ہیں، ان میں کتابی باتوں پر عمل بالکل ناممکن سا لگتا ہے، لیکن جب ہمارے ہی ٹائپ کے لوگ عمل کرتے ہیں تو، ہمت اور تقویت ملتی ہے کہ اگر فلاں کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ ہوسکتا ہے کہ تم اپنے اس سفر کے بارے میں شیئر کرو اور کوئی حوصلہ پا کر اس پر عمل کرنے لگے تو تمہیں اس کا بھی اجر مل جائے۔ ۔ ۔ یوں کچھ شرائط کے بعد اس نے بتانا شروع کیا:
’’کئی سال سے دماغ میں تھا کہ قضا روزے رکھنے ہیں لیکن ایک تو میں کھانے پینے کی خوب شوقین تھی اوپر سے روزوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ میں سوچ کر رہ جاتی کہ پوری کیسے کر پاؤں گی۔ پھر میں نے سوچا کہ نیت تو کر ہی لینی چاہیے لیکن عمل کی تب بھی ہمت نہ ہوئی۔ ۔ ۔ سوچا فدیہ دے دوں تو پتہ چلا کہ جس کی صحت روزہ رکھنے کے قابل ہو اسے روزے رکھ کر ہی یہ قرض چکانا ہوگا۔ ۔ ۔ چالاکی یہ سوجھی (نعوذ باللہ) کہ بڑھاپے کا انتظار کروں اور جب کمزور ہو جاؤں تو فدیہ دے دوں۔ لیکن پھر بہت قریب کی دوستوں میں سے تین کو بریسٹ کینسر ہوگیا اور ایک کے گردوں میں انفیکشن، تو یہ میرے لیے کئی طرح سے جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی باتیں ثابت ہوئیں، پہلی تو یہی کہ موت کا کچھ پتہ نہیں کب آجائے، دوسرا صحت ہزار نعمت ہے، جن کو گردے کا انفیکشن ہوا تھا، وہ نہ تو زیادہ کھا سکتی نہ پی سکتی، لیکن ساتھ ہی وقفے وقفے سے ذرا ذرا سا پینا یا کھانا بھی پڑتا تو یوں وہ بھوک پیاس، پرہیز بھی سہتی پر روزہ بھی نہ رکھ پاتی۔
جن کو بریسٹ کینسر ہوا تھا ان میں سے دو نے آپریشن اور کیمو تھراپی کے بعد پیدا ہو جانے والے عیب کو چھپانے کے لیے سکارف پہننا شروع کر دیا تھا۔ یہ میرے لیے بہت سوچنے کا مقام تھا کہ اب میں صحت کے شکر کے طور پر ہی سدھر جاؤں اور خدانخواستہ کل کو اپنے عیب کو مجبوری میں چھپانے کے بجائے، آج اپنے رب کی رضا کی خاطر اپنی زینت اور ستر کو چھپاؤں۔ ۔ ۔ کام تو یہ بھی کوئی آسان نہ تھا لیکن میرے جیسی خوش خوراک اور چٹوری بندی کے لیے بغیر رمضان کے روزوں کی نسبت بہتر ہی تھا۔ ۔ ۔ وقت گزرتا رہا سردیاں آتیں تو کبھی شادیوں کے فنگشنز، کبھی سب گھر والوں کے موسمی فلو، کبھی آؤٹنگ اور مہمانداری وغیرہ میں گذر جاتیں اور یوں کئی قیمتی سال گذر گئے۔ ۔ ۔ بچے بڑے اور ہم میاں بیوی ادھیڑ عمری کی دہلیز پر آگئے۔
پھر اچانک سے مختلف کاموں میں رکاوٹیں شروع ہوگئیں، کوئی کہتا جادو ہے کوئی نظر کوئی اثر لیکن میرے دل میں میرا خود سے کیا ہوا وعدہ- میرا قرض کھٹکتا رہتا کہ یہی اصل مرض ہے۔ ۔ ۔ اور یوں جب کوئی چارہ نہ رہا تو، اللہ کا نام لے کر روزے رکھنے شروع کر دیے۔ یقین کرو کہ پہلے ماہ کے مکمل ہونے میں دو دن تھے کہ اس مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے قبل تو کیا کام ختم ہونے سے بھی پہلے، اس دنیا کی اجرت تو مل گئی۔ بالکل ناممکن کام ایسے ہوا کہ کوئی سوچ نہیں سکتا۔
میرے رب نے میرا بہت حوصلہ بڑھایا۔ ۔ ۔ لیکن کسی نہ کسی سبب میں پھر رک گئی ہمت ہار گئی اور تب بہت سے کام بھی ایسے رکے کہ، اس بار تو موسم بھی نہ دیکھا اور توبہ کر کے دوبارہ شروع ہوگئی۔ ۔ ۔
جب آپ فیملی کے بیچ ہو، ہر کوئی اپنی مرضی کی چیزیں کھا پی رہا ہو تو ہر روز دل کرتا ہے کہ ہم بھی ان میں شامل ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے بڑی مدد فرمائی کہ مولانا طارق جمیل کی یہ بات میرے کانوں سے گزرتی دل پر اثر کر گئی کہ جب روزہ لگا کرے تو قرآن پڑھا کرو، بھوک لگے یا پیاس لگے قرآن پڑھا کرو، یوں میرے دو مسلے حل ہوگئے پہلا بھوک پیاس پر باآسانی قابو دوسرا باقائدگی سے قرآن پڑھنا۔ ۔ ۔ ابھی تو دوسرے ماہ کے ہی روزے چل رہے تھے اور یہ ایک محنت طلب کام لگ رہا تھا، ہمت ٹوٹ رہی تھی کہ گھر میں کوئی مرمت کا کام نکل آیا مستری آیا تو میرے میاں سے پڑوس کے صاحب کی نان سٹاپ برائیاں شروع کر دیں۔ ۔ ۔ آوازیں مجھ تک بھی آرہی تھیں تو مجھے پہلے تو غصہ آیا کہ بس اب چپ بھی کر جائے لیکن پھر ترس آیا کہ کاش کوئی اس کو بتائے کہ اس کی نیکیاں ان صاحب کو جا رہی ہیں، کبھی سردی کے وضو کی کبھی گرمیوں کے روزے کی! اور بس یہ وہ لمحہ تھا کہ میں اندر سے دہل گئی کہ میں جو یہ روزے رکھ رہی ہوں یہ کس کس کو دے سکتی ہوں؟ اپنے چہیتے والدین کو؟ اپنی لاڈلی اولادوں کو؟ نہیں کسی صورت نہیں۔ ۔ ۔ تو پھر ساس نند دیور بھاوج پڑوسن، بیگانی شادیوں میں شامل انجان لوگوں کو جن پر کھل کر تبصرہ کیا جاتا ہے ان کو؟۔ ۔ ۔ اف میرے خدا یہ روزوں کی برکت ہی ہے جو مجھے اب یہ بات سمجھ میں آگئی۔
غیبت ترک کرنے کا تہیہ کرنے کے بعد حیرت انگیز طور پر میرے غصے میں کمی آنے لگی، کیوں کہ جب آپ کو غیبت نہیں کرنی ہوتی تب تین باتیں تو لازمی ہوتی ہیں ایک یہ کہ آپ عیب جوئی سے بچنے لگتے ہو، جب باتوں کو پکڑتے نہیں تو ان پر کڑھتے بھی نہیں، تیسرا اللہ تعالیٰ سے دکھ سکھ بیان کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے اور جس کی بات بری لگے اسی کو بتا دینے کا ہنر آجاتا ہے، تو کئی مسائل حل ہونے شروع ہوجاتے ہیں،۔ ۔ ۔ بہرحال یہ تیس روزے کوئی ڈھائی ماہ میں مکمل ہوئے تو یقین مانو کہ اس بار بھی میرے رکے ہوئے کام معجزانہ طور پر ہوگئے۔ الحمد للہ اور پھر میں نے خود سے وعدہ کیا کہ اب انشا اللہ جمی رہوں گی۔ ۔ ۔
اور یوں آگے بڑھتے ساتھ مجھے ایک اور بات سمجھ آئی کہ کئی سال گنوا دینے کے پیچھے ایک وجہ درست علم کا نہ ہونا، اور ناقص علم کی بہتات ہونا بھی تھا۔ ۔ ۔ آبا و اجداد سے سنا کرتے، اخباروں کتابوں میں پڑھتے، ، ریڈیو ٹی وی پر سنتے کہ فلاں فلاں رات کو جاگو اگلے دن روزہ رکھو تو ہزار روزوں کے برابر ثواب ملے گا اور میرے جسے کتنے نادان جو کتابوں اور مستند کتابوں میں فرق نہیں جانتے، مستند عالم اور کلچرل عالم میں فرق نہیں جانتے یہی سوچ کر یہ روزے رکھ لیا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم جیسوں کی آسانی کے لیے ہی یہ سہولت رکھی ہے (استغفراللہ)، تب خبر ہی نہ تھی کہ یہ تو نیکی کی آڑ میں شیطان کا کھلا دھوکہ ہے شکر ہے اللہ کا کہ میں نے تعصب کی عینک پہن کر یہ معاملہ نہیں دیکھا ورنہ یہ ممکن تھا کہ کسی فرقے کا نام دیکر اس بات کو سرے سے رد کر دیتی، برا مان کر بیٹھ جاتی۔ ایک غلطی میری یہ بھی تھی کہ بجائے، باقائدہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کے، نیلی کتاب میں سے فلاں پریشانی دور کرنے کا دو گھنٹے کا وظیفہ، سبز کتاب میں سے یہ والی سورہ تین بار گیارہ بار میں ہی الجھی رہی بنا غور کیے کہ یہ سب مستند احادیث سے ثابت ہیں بھی یا نہیں ؟۔ ۔ ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے بے حد کرم کے ساتھ بات آگے بڑھنے لگی، اور ایک بات مجھ پر واضح ہوئی کہ سردیوں میں تو روزہ مختصر ہی نہیں ہوتا بلکہ صرف دو گھنٹے کا ہوتا ہے ایک گھنٹہ پہلے صبح سب کے ناشتے سے پہلے ناشتہ کر لیا تو پھر کوئی کچھ بھی بنائے یا کھائے فرق نہیں پڑتا، اور دوپہر کا کھانا ابھی ہم ٹیبل پر لگا ہی رہے ہوتے کہ عصر کی اذانیں ہونے لگتیں، نماز پڑھ کر سب کو کھانا، چائے دینے میں مغرب ہو جاتی تو وقت تو ہو ہی جاتا، ، کچھ اور روزوں میں اضافہ ہوا تو میں نے غور کیا کہ میرے ڈاکٹرز اور لیب وغیرہ کے وزٹ میں نمایاں کمی آگئی ہے، یعنی ہمیشہ سے جو سنتے آئے تھے کہ کم کھانا، بھوک لگنے پر کھانا، ہر ماہ کے کم از کم تین روزے رکھنا صحت کا ضامن ہے وہ سمجھ آرہی تھی، رفتہ رفتہ میری بینائی بہتر ہونے لگی جو جگر کی خرابی کے سبب ہو رہی تھی جگر کو آرام ملنے لگا تو اور بہت سے مسائل کم ہونا شروع ہوگئے جن میں سر فہرست سر کا درد تھا۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ الحمد للہ، ذرا سی محنت پر، دنیا میں میرے رب نے کامیابی اور راحت کے انگنت دروازے مجھ پر کھول دیے ہیں، اب دعا ہے کہ وہ میرے ان ٹوٹے پھوٹے آدھے ادھورے کاموں کو اپنی رحمت سے قبول فرما لے اور قیامت کے روز میرے لیے باب ریان سے جنت میں داخلے کا پروانہ عطا فرمادے۔ (آمین)