زندگی اور برداشت ۔ ریاض علی خٹک
ایک چیز رفتار ہوتی ہے، چیتا 70 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے لیکن سوال بنتا ہے کہ کتنا دوڑ سکتا ہے؟ تو اس رفتار پر یہ صرف 700 گز دوڑ سکتا ہے، اس سے زیادہ اس کی برداشت سے باہر ہے، اس لیے جب رفتار کی بات آتی ہے تو اہم تر چیز برداشت ہے۔
کچھ چیزوں کو اللہ رب العزت نے خصوصیات دی ہوتی ہیں۔ آپ گھوڑوں کی مثال لیں۔ گھوڑے میں ایک نسل عربی کہلاتی ہے۔ بظاہر ایک جیسے گھوڑوں میں عربی گھوڑے منفرد ہوتے ہیں۔ ان کے پٹھوں کے ریشے عام گھوڑوں سے الگ ہیں۔ یہ twitch fiber کہلاتے ہیں۔ یہ گھوڑوں کی دوسری نسل سے دوگنا عربی نسل میں ہوتے ہیں۔ ان کے خون کے سرخ ذرات چھوٹے لیکن زیادہ ہوتے ہیں۔ جس سے فضا سے آکسیجن زیادہ لے سکتے ہیں۔ ان کا چہرہ چھوٹا ناک کے نتھنے بڑے ہوتے ہیں۔ ان کا دل سینہ پھیپھڑے عام گھوڑوں سے بڑے ہوتے ہیں۔ ان کے جسم کی جلد پتلی ہوتی ہے۔ اس لیے عربی گھوڑے میں دوسری ہر نسل کے گھوڑے سے زیادہ برداشت اور رفتار ہوتی ہے، لیکن بہت سی نسلوں سے کم طاقت ہوتی ہے۔
چیتا شکار کیلئے دوڑتا ہے۔ گھوڑے کو سوار دوڑاتا ہے۔ یہ سوار ہی ہوتا ہے جو اپنے گھوڑے کی نسل و برداشت جان کر اس کے راستے و منزل طے کرتا ہے۔ اس کی برداشت کیلئے آرام و خوراک کا حساب رکھتا ہے۔ اس کا سوار انسان ہے۔ جسے ہر ذی روح سے زیادہ برداشت دی گئی ہے۔ آج دنیا کے ہر جانور کے ساتھ طویل فاصلے کی میراتھن کرا دیں۔ فاتح انسان ہی ہوگا۔ ہاں اس انسان کو برداشت کے ساتھ شعور بھی دیا گیا ہے۔ وہ شعور جو برداشت کرنا سکھاتا ہے۔ اپنی برداشت کو شعور کی طاقت دیتا ہے۔ یاد رکھیں جس نے برداشت کھو دی، اس نے منزل کھو دی کیونکہ زندگی برداشت کا سفر ہے۔