بامقصد زندگی ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ مگر اکثر حالات میں یہ صلاحیتیں دبی رہتی ہیں۔ یہ صلاحیتیں اس وقت پوری طرح اجاگر ہوتی ہیں جب انسان کسی مشکل میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ ایسے میں انسان اپنی سو فیصد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا اور مشکل سے مشکل حالات کا سامنا بڑے حوصلے سے کرلیتا ہے۔ تاہم جیسے ہی مشکل حالات گزر جاتے ہیں انسان دوبارہ معمولی انسان بن جاتا ہے۔
تاہم ایک دوسرا ذریعہ ایسا ہے جو نہ صرف انسان کی صلاحیتوں کو پوری طرح بیدار کرتا ہے بلکہ مستقل طور پر انسان کو ایک غیر معمولی انسان بنا دیتا ہے۔ یہ دوسرا موقع وہ ہوتا ہے جب انسان اپنی زندگی کا کوئی بلند تر مقصد طے کرلیتا ہے۔ مقصد چھوٹا ہو یا بڑا جب انسان کا دل و دماغ پوری طرح اس پر مطمئن ہو جائے تو انسان کو غیر معمولی بنا دیتا ہے۔
ایسا انسان اپنے مقصد کے لیے ہر مشکل جھیلتا، ہر مشقت اٹھاتا اور ہر طرح کے حالات سے ٹکرا جاتا ہے۔ وہ ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ وہ مشکل کو آسان کر دیتا ہے۔ وہ ناقابل حصول کو قابل حصول بنا دیتا ہے۔ یہ سب کچھ اس کا مقصد اس سے کرواتا ہے۔ اس کی سادہ ترین مثال طلبا کا زمانہ امتحان ہے جس میں تمام طالب علم غیر معمولی محنت کرتے ہیں اور اپنی اپنی صلاحیت کے لحاظ سے بہتر سے بہتر نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چنانچہ کوئی شخص اگر اپنی تمام صلاحیتوں کو بیدار کرنا چاہے تو اسے ایک بامقصد زندگی گزارنی چاہیے۔ یہ مقصد اس کے حالات کے لحاظ سے کچھ بھی ہوسکتا ہے، لیکن سب سے بہتر مقصد جنت کی منزل اور اس تک پہنچنے کے درست راستے کی تلاش ہے۔
جنت کو اپنا مقصد بنانے کے دو فائدے ہیں جو کسی اور طرح سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ ایک یہ کہ یہی وہ مقصد ہے جسے لے کر ہر انسان دراصل اس دنیا میں آیا ہے۔ ہمارے اندر جتنی بھی صلاحیتیں ہیں وہ اصلًا اس لیے رکھی گئی ہیں کہ ہم جنت کی مشکل مگر اعلیٰ ترین کامیابی کو حاصل کرسکیں۔ جس وقت ہم جنت کو اپنا مقصد بناتے ہیں تو ہم اپنے وجود کے ظاہر و باطن، دل و دماغ، روح و جسم سب کو پوری طرح فعال کر دیتے ہیں۔
جنت کو منزل بنانے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس منزل کا جو راستہ قرآن مجید نے بیان کیا ہے اور جسے عرف عام میں ایمان و اخلاق کی دعوت کہتے ہیں، اس راستے کی تلاش اور اس پر چلنے کا عمل انسان کے اندر سے اس کی تمام خرابیاں خودب خود دور کر دیتا ہے۔ جنت کے راستے پر کوئی متعصب، مفاد پرست، خود پسند، نامعقول اور بداخلاق انسان نہیں چل سکتا۔ یہی وہ خرابیاں ہیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کو جہنم بنا دیتی ہیں۔ چنانچہ ایک بندہ مومن جب قرآن کی بیان کردہ صراط مستقیم یعنی ایمان و اخلاق کے تقاضوں کو اختیار کرنا شروع کرتا ہے تو معاشرے میں ایک اعلیٰ انسان کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ اعلیٰ انسان جہاں بھی ہوں، بندگان خدا کے لیے رحمت بن کر رہتے ہیں۔
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو جنت کی کامیابی کا جو مقصد دے کر بھیجا تھا، بدقسمتی سے دنیا کی کشش نے اس کا رخ مادی اور فانی کامیابیوں اور دنیا کی رنگینیوں کی طرف کر دیا ہے۔ آج کا انسان دنیوی مقاصد کے لیے جان لڑا دیتا ہے، مگر آخرت کے اس عظیم مقصد سے غافل ہے جس کے لیے اسے تمام صلاحیتیں دی گئی تھیں۔ دنیا کو مقصد بنانے کے نتیجے میں پست سے پست تر انسان سماج میں بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ یہ انسان جہاں ہوتے ہیں، بندگان خدا کے لیے ایک مصیبت بن کر رہتے ہیں۔ ایسے میں انسان کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اسے آخرت کے مقصد کی یاد دہانی کرائی جائے۔ یہی کرنے کا سب سے بڑا کام ہے۔