یہودی اور ہمارے ٹاک شوز ۔ ابویحییٰ
مناظرہ ایک ایسا فن ہے جس میں دو فریق ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ مناظرے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مخالف فریق کی مضبوط ترین دلیلوں کو بے معنی اعتراضات سے چٹکیوں میں اڑا دیا جائے۔ اس کی ایک نمایاں ترین مثال یہ ہے کہ قرآن مجید نے جب یہ چیلنج دیا کہ اس قرآن جیسی ایک سورت بھی بنا لاؤ تو ہر گردن اس اعتراف میں جھک گئی کہ اس جیسا اعلیٰ کلام تخلیق کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔
مگر یہود اس ناقابل شکست دلیل کا ایسا جواب لائے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ انہوں نے چیلنج سے فرار اختیار کرتے ہوئے الٹا قرآن پر کمال عیاری کے ساتھ یہ اعتراض کر دیا کہ جس کلام میں مچھروں اور مکھیوں جیسی گھٹیا مخلوق کا ذکر ہو وہ اعلیٰ کیسے ہوسکتا ہے، گھٹیا تمثیل کوئی اعلیٰ مفہوم تو کیا کوئی بامعنی مفہوم ہی بیان نہیں کرسکتی۔ اس واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مناظرانہ سوچ کیا ہوتی ہے اور کس طرح الزامی طریقہ کار اور لفاظی پر مبنی اعتراض سے ناقابل تردید چیلنج کو بھی بظاہر ملیا میٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے کچھ اور ہو نہ ہو اپنے لوگ ضرور مطمئن ہوجاتے ہیں۔
بدقسمتی سے آج کل کے ٹی وی شوز، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ہونے والے بحث و مناظرے میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ ان مباحثوں میں اسی طریقہ واردات کو استعمال کر کے ہر غلطی کا بھرپور دفاع کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی کسی اخلاقی غلطی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے فوراً غیر متعلقہ نکتہ اٹھا کر اپنے جرم سے توجہ ہٹانے کے لیے ملبہ کسی اور پر گرا دیا جاتا ہے۔ کسی کرپشن، دھاندلی، یا زیادتی کا ذکر کیا جاتا ہے اعتراف کے بجائے فوراً ایک جوابی الزام لگا دیا جاتا ہے۔ مگر ایسا کرنے والے ہوشیار لوگوں کو شاید یاد نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سطح پر اترنے والے یہود کے الزام کا جواب دینے کے بجائے ان کی جڑ کاٹنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کاش لوگ یہ بات سمجھ لیں۔