تعمیری کام اور تخریبی کام ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جو دنیا بنائی ہے وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک تعمیری دنیا ہے۔ اس دنیا میں پہاڑ ہیں جو اگر ہلنے لگیں تو آبادیاں ختم ہوجائیں، مگر وہ صدیوں اپنی جگہ کھڑے رہ کر انسانوں کو موسم اور جنگلات عطا کرتے ہیں۔ اس دنیا میں سمندر ہیں جو اگر ابل پڑیں تو شہروں کو ساتھ بہا لے جائیں، مگر اس کے بجائے وہ انسانوں کے سفر کے لیے اپنا سینہ مسخر کر دیتے ہیں۔ اس دنیا میں ہوا ہے جو بے قابو ہوجائے تو زندگی کی ہر رمق کو اڑا کر رکھ دے گی، مگر وہ زندگی کو تنفس جیسی لازمی چیز کی فراہمی سے آگے نہیں بڑھتی۔
خدا کی دنیا کا یہ مزاج اس وجہ سے بنایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کچھ افراد کے لیے نہیں بلکہ تمام مخلوق کے لیے بنائی ہے۔ تمام مخلوق کا فائدہ صرف تعمیری کام سے ہوتا ہے۔ جبکہ تخریبی کام سے کچھ ہی لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ مثلاً زلزلہ، طوفان اور آندھی آنے سے بھی کچھ کاروباری لوگوں کی دولت اور بڑھ جاتی ہے، مگر بیشتر لوگوں کا بہت نقصان ہوجاتا ہے۔
انسانی معاشروں کا معاملہ بھی اس سے کچھ جدا نہیں۔ یہاں بھی تعمیری کام سے سب لوگوں کا بھلا ہوتا ہے لیکن تخریبی کام سے کچھ لوگوں کا بھلا اور باقی کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال جنگ ہے۔ جنگ انسانی معاشروں کو برباد کر دینے والی شے ہے۔ یہ بچوں کو یتیم، عورتوں کو بیوہ اور آباد گھروں کو برباد کر دینے والی شے ہے۔ مگر کچھ لوگ جنگوں میں خوب دولت اور شہرت کماتے ہیں۔ اس کے برعکس تعلیم ایک تعمیری عمل ہے۔ اس سے تمام لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے۔
اگر ہمیں اپنے معاشرے کو بہتر بنانا ہے تو ہمیں تعمیری کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی اور تخریبی سوچ کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ ہم ایسا نہیں کریں گے تو کچھ لوگوں کو بہت فائدہ ہوگا، مگر عام آدمی مسلسل نقصان اٹھاتا رہے گا۔