تکبر کی ماں ۔ ابویحییٰ
تکبر ایک بہت بڑی اخلاقی برائی ہے۔ معلوم تاریخ کا پہلا متکبر شیطان تھا جس نے آدم کو حقیر سمجھ کر سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا، قرآن مجید نے اس کے انکار کو تکبر اور ناشکرے پن سے تعبیر کیا۔ (بقرہ34:2)
تکبر اور ناشکرا پن دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ انسان تکبر اس وقت کرتا ہے جب وہ اپنے کسی فضل و کمال کی بنا پر دوسرے انسانوں کو حقیر سمجھے۔ مگر یہ تکبر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ناشکرے پن سے پیدا ہوتا ہے جو براہ راست اللہ تعالیٰ کے خلاف کیا گیا ایک اخلاقی جرم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان محروم مطلق ہے۔ یہاں نہ کسی کے پاس کچھ ہوتا ہے اور نہ رہ سکتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی عطا اس کا دامن نہ بھر دے ۔زندگی، صحت، حسن، جوانی، ذہانت، مال، اولاد، مقام، مرتبہ، اقتدار، علم غرض ہر وہ چیز جس کی بنا پر انسان اپنے آپ کو بڑ ا سمجھ سکتا ہے یا سمجھتا ہے وہ دراصل رب العالمین کی عطا کردہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہیں جس سے چاہیں اور جو چاہیں واپس لے لیں۔ کسی میں اتنا دم خم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کچھ کرنے سے روک سکے۔
اس حقیقت کے باوجود لوگ جب دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں تو وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نعمت و انعام کو بھولتے ہیں۔ وہ عطا کو عطا سمجھنے کے بجائے اپنی محنت کا نتیجہ یا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس دنیا میں اگر کوئی ہے جو اپنی ذات میں آپ قائم اور اپنے آپ سے زندہ ہے، تو وہ اللہ ہے۔ ہر چیز اسی کی ملک ہے۔ باقی ہر مخلوق کے پاس تو جو کچھ ہے وہ صرف رب کی عطا ہے۔ ایسے میں تکبر کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی نعمت کو اپنا حق سمجھ کر ناشکرا پن کرنا ہے۔ یہی ناشکرا پن ہے جس کے بطن سے تکبر جیسی لعنت جنم لیتی ہے۔ اس لیے ناشکری سے بچنا تکبر سے بچنے کی پہلی سیڑھی ہے۔