شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے؟ ۔ خالد عثمان خان
وہ پرجوش انداز میں شوہر کے حقوق کے بارے میں بول رہا تھا۔ اس کے مطابق شوہر جیسے گھر کا خدا ہے۔ آخر میں بولا کہ اگر شوہر کے سارے جسم پر پھوڑے اور زخم ہوں اور بیوی تمام زخموں اور اس سے ر ستے گندے مواد کو زبان سے صاف کرے تو بھی وہ شوہر کے حق کو پورا نہیں کرسکتی۔ مردوں کو تو مزا آرہا تھا لیکن ہماری فیمیل کولیگز کافی الجھی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ gender balanced ماحول میں کام کرنے والیوں کے لیے ایسی باتیں ہضم کرنا ذرا مشکل ہی ہوتا ہے۔ فرمان ابھی جاری تھا، بولے! اگر بیوی بچے بات نہیں مان رہے ہیں تو انھیں برابر ڈرانا اور مارنا چاہیے اور پھر وہی گھسا پٹا جملہ کہ اولاد اور بیوی کو سونے کا نوالا کھلاؤ لیکن دیکھو شیر کی نگاہ سے۔
مجھے ہنسی آئی اور کہا کہ اس طرح تو وہ بزدل گیدڑ بن جائیں گے۔ ان کی شخصیت مسخ ہوکر رہ جائے گی۔ بیوی اور بچوں کو تو پیار سے سمجھانا چاہیے۔ انھیں غلط کاموں کے نقصانات سے آگاہ کرکے منع کرنا بہتر طریقہ ہے۔ اسی طرح بیوی کو مارنا یا سزا آخری مرحلہ ہوتا ہے اور وہ بھی اخلاقی بے راہ روی جیسے جرائم میں۔
سالن میں نمک زیادہ ہونے یا کپڑے وقت پر استری نہ کرنے جیسی غلطیوں پر بیوی کو مارنا جاہلوں کا طریقہ ہے۔ اسی طرح بچوں کو ابتدائی عمر میں سنگین غلطیوں پرتادیب کر سکتے ہیں لیکن تھوڑا سا شور کرنے یا چھوٹی موٹی چیزوں پر بے دردی سے مارنا نہایت نامناسب بات ہے۔ بلکہ بچے اسے ناانصافی سمجھ کر بدظن ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بیوی اگر اخلاقی بے راہ روی کی طرف مائل ہے تو پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اسے سمجھائیں۔ اگر سمجھ نہیں رہی ہے تو دوسرے مرحلے پہ اپنا بستر اس سے الگ کرلینا چاہیے۔ اس طرح بھی نہ سمجھے تو خاندان کے دونوں طرف کے بڑوں کو سامنے بٹھا کر معاملہ صاف کرلیں۔اس کے باوجود بھی مان لینے پہ تیار نہیں تو اگر بیوی بہت عزیز ہے اور چھوڑنا نہیں چاہتے تو پھر قرآن نے اصلاح و تادیب کا جو راستہ بتایا ہے اسے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ جو طریقہ اللہ نے قرآن میں بتایا ہے وہ یقیناً حکمت سے بھرپور ہے۔
بیوی پر شوہر کا جو سب سے بڑا حق ہے وہ یہ ہے کہ وہ شوہر سے وفادار رہے۔ اپنی عصمت کی حفاظت کرے۔ چھپ کر آشنائیاں نہ کرے۔ اور شوہر کی اولاد میں ملاوٹ نہ کرے۔ باقی خدمت اگر کرتی ہے تو یقیناً نیکی ہے لیکن لازم نہیں۔ وہ بہرحال شوہر کی ساتھی ہے نوکرانی نہیں ہے۔ شوہر کے بھائیوں اور والدین کے نخرے اٹھانا اس کے فرائض میں شامل نہیں۔ بلکہ اس طرح کے معاملات شادی سے پہلے طے کرنے چاہئیں۔ جاب کرنے کی اجازت، گھریلو ذمہ داریوں وغیرہ جیسے معاملات شادی کے وقت ہی طے کرنا چاہئیں۔
باقی باتیں ثانوی اہمیت کی ہیں۔ اور ہمارے معاشرے میں بیوی کے مرتب کردہ فرائض اکثر زیادتی میں شمار ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر عورت جاب کرنا چاہتی ہے تو یہ شادی کے وقت ہی طے کرنا چاہیے۔ دین نے عورت کو کمانے سے منع تو نہیں کیا ہے لیکن اسے اس کے فرائض میں بھی شامل نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اگر بیوی کو شوہر کی خدمت کرنے پر ثواب ملتا ہے تو شوہر کو بھی بیوی کی خدمت کرنے پر ثواب ہی ملے گا۔ یہی فطرت کا تقاضا ہے اور اسلام دین فطرت ہے۔ اللہ ہم سب کو تمام معاملات میں صحیح جگہ پر ہونے کی توفیق دے۔ آمین