نجات دہندہ اور انقلابی سوچ ۔ ابویحییٰ
پاکستان کے موجودہ ملکی اور خاص کر معاشی حالات ہر دردمند شخص کے لیے باعث تشویش ہیں۔ ان کی اس قدر تفصیلات اِس وقت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آرہی ہیں کہ ان کا دہرانا کارِعبث ہے۔ جس شخص کو اخبارات پڑھنے کا وقت نہیں وہ اپنے بجلی، گیس اور ضروریات زندگی کے بلوں اور مہنگائی کی بڑھتی ہوئی لہر کی شکل میں بھی اسے پڑھ سکتا ہے۔
موجودہ حکمرانوں کے تمام مخالفین اور اب تو ان کے حامی بھی اس صورتحال کی ذمہ داری عمران خان اور ان کی پارٹی پر ڈال رہے ہیں۔ تاہم جس قدر مشکلات ہم اس وقت جھیل رہے ہیں اور آئندہ آنے والے دنوں میں مزید جھیلیں گے، اس کی براہ راست ذمہ داری موجودہ حکمرانوں پر عائد نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سوچ کے علمبرداروں پر عائد ہوتی ہے جو عرصے سے قوم کو یہ جھوٹی امیدیں دلاتے رہے ہیں کہ بس ایک مخلص نجات دہندہ آئے گا اور ان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ایک سیاسی انقلاب آئے گا اور ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔
اب سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ ایک ایماندار اور مخلص نجات دہندہ اقتدار پر فائز ہے۔ انقلاب آیا ہے اور ایسا آیا ہے کہ سارے سیاسی مخالفین کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ مقتدر طبقات اور اہم ادارے سب حکومت وقت کے ساتھ ہیں یا کم از کم کوئی مسئلہ پیدا نہیں کر رہے۔ کسی سیاسی حکمران کو کام کرنے کا شاید ہی ایسا سازگار ماحول کبھی میسر آیا ہوگا۔ مگر دیکھیے کہ ہم دنیا میں بھکاریوں کی طرح بھیک مانگتے پھر رہے ہیں اور پھر بھی مہنگائی کی لہریں غریبوں کی نیا ڈبونے کے درپے ہیں۔ اتنے وسائل کی حامل کسی بهی قوم نے شاید ہی ایسی ذلت دیکھی ہو۔
یہ صورتحال یہ حقیقت بالکل کھول کر رکھ دیتی ہے کہ موجودہ دنیا اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ یہ نہ تنہا کسی نجات دہندہ کے بس کی بات ہے اور نہ کوئی انقلابی تبدیلی یہاں کوئی خیر لاسکتی ہے۔ دو سو برس پہلے مغرب نے اور اِس دور میں چین نے دنیا کو یہ سبق دیا ہے کہ تدریجی تبدیلی اور اداروں کی بہتری ہی مستحکم اور دیرپا تبدیلی لاتی ہے۔ کاش ہماری قوم کو اب یہ بات سمجھ آجائے۔
اب ہم کیا یاد دلائیں کہ 2013 کے الیکشن کے بعد سے ہم بار بار کس چیز کی طرف موجودہ حکمرانوں کو توجہ دلاتے رہے تھے۔ وہ اگر ان معقول باتوں کو مانتے تو آج نتیجہ کیا ہوتا۔ وہ سوشل میڈیا کی پروپیگنڈا مہم پر بھروسہ کرنے کے بجائے کے پی کے کو دنیا کا نہ سہی ایشیا کا اور ایشیا کا نہ سہی تو پاکستان ہی کا بہترین ترقی یافتہ صوبہ بنا کر پورے پاکستان کی آنکھیں کھول سکتے تھے۔
جس دھاندلی کے لیے تین سال کنٹینر پر چڑھے رہے، اس کی جگہ اسمبلی میں زور لگا کر شفاف الیکشن کے لیے کہیں بہتر قانون سازی پر اُس وقت کے حکمرانوں کو مجبور کرسکتے تھے۔ دو سال تک جس پانامہ کے پیچھے ملک کو مکمل انتشار میں رکھا اور آج کے دن تک ایک پیسہ ملک کو واپس نہیں ملا، اس کی جگہ حکمرانوں پر دباؤ ڈال کر جاری کرپشن کو روکنے کے لیے ان گنت اقدامات کروا سکتے تھے۔
اس سب کے نتیجے میں 2018 کے الیکشن میں لازماً پی ٹی آئی کو جیتنا تھا کیوں کہ عمران خان کے پاس حقیقتاً عوامی حمایت موجود تھی۔ پھر 2018 یوں شروع ہوتا کہ پی ٹی آئی کے پاس مکمل تربیت یافتہ ٹیم ہوتی جو پچھلے پانچ برسوں میں کے پی کے کے تجربات کی روشنی میں اور سیاسی ہنگامہ آرائی سے دور رہ کر مکمل تیاری کے ساتھ اقتدار میں آتی۔ کوئی عمران خان کو کٹھ پتلی حکمران کہنے کی ہمت نہیں کرتا۔ فوج اور عدلیہ کی اخلاقی حیثیت پر سوال پیدا نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی کو اتنی بری حالت میں ملکی معیشت نہیں ملتی اور سب سے بڑھ کر بدتمیزی پر مبنی موجودہ سیاسی کلچر نہیں پیدا ہوتا۔
ہم سب کچھ کہتے رہے اور سمجھاتے رہے مگر کسی نے کان نہ دهرے مگر کیوں؟ اس لیے کہ یہاں عرصے سے ایک ہی پٹی قوم کو پڑھائی جارہی ہے کہ بس ساری خرابی ایک حکمران میں ہوتی ہے اور حکمران بدلنے سے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ نجات دہندہ کسی انقلاب کے ذریعے سے اقتدار میں پہنچ جائے اس کے بعد وہ جادو کی چھڑی گھمائے گا اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اوپر بیٹھے ہوئے شخص کو بس ٹھیک ہونا چاہیے باقی سب خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے۔ یہ ہونا ہوتا تو حضرت عثمان اور حضرت علی جیسے جلیل القدر صحابہ جن کے کردار کی گواہی خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، ان کے دور میں فساد نہیں ہوتا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے مجدد امت کو زہر دے کر اقتدار سے نہیں ہٹایا جاتا۔
تاہم ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ ابھی بھی سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے پہلے یہ حقیقت سمجھنی پڑے گی کہ انقلابی تبدیلی کے بجائے تدریجی تبدیلی اجتماعی ترقی کا درست راستہ ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا واحد نجات دہندہ چودہ سو برس پہلے ہی آچکا ہے۔ ہمیں کسی نجات دہندہ کا انتظار کرنے کے بجائے ان کی تعلیمات کو اختیار کرنا چاہیے۔ یہ تعلیم اخلاق، دیانت، حیا، صبر، درگزر اور عدل و احسان کی تعلیم ہے۔ ان کا طریقہ تدریج کا طریقہ ہے۔ ان کے پیدا کردہ اور ہمارے آئیڈیل لوگ جن کا نقشہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انجیل میں کھینچا اور قرآن کی سورہ فتح میں اللہ نے دہرا دیا وہ ایک درخت کے تدریجی ارتقا کی تمثیل ہے۔ یہی ایمان، اخلاق کی روش اور تدریج کا طریقہ ہمارے لیے ترقی کا رول ماڈل ہے۔
باقی رہے ملکی حالات تو ہم وہی کاٹیں گے جو بویا ہے۔ وہی پائیں گے جو مانگا ہے۔ پیٹنا ہے تو پی ٹی آئی کے بجائے اب اپنا سر پیٹیں اور کوسنا ہے تو عمران خان کے بجائے ان فکری لیڈروں کو کوسیں جن کی انقلابی باتوں اور ایک نجات دہندہ کی بشارتوں کو مان کر ہم اس حال کو پہنچے ہیں۔ خدا کی دنیا کسی خواہش پر تبدیل نہیں ہوتی۔ اب حکومت وقت کو صبر کے ساتھ موقع دیں۔ اگر ہم نے صبر سے کام لیا تو بتدریج معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔