شوق اور انجام ۔ ابو یحییٰ
ایک صاحب علم کا ایک مضمون کسی جگہ شائع ہوا۔ ایک ناقد نے سیاق و سباق سے کاٹ کر اس مضمون کا ایک جملہ پکڑا اور سنگین الزام و بہتان پر مشتمل ایک مضمون ان کے خلاف شائع کر دیا۔ ان صاحب نے ایک جوابی مضمون میں آخرت کے پہلو سے ناقد کو متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ جس کے بعد ناقد کے کئی اور حامیوں نے ان صاحب کے خلاف مضامین لکھ کر ایک مذموم مہم شروع کر دی۔ ان میں سے ہر مضمون علمی بددیانتی اور اندھے تعصب کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھا۔
لوگوں نے ان صاحب سے کہا کہ آپ جواب دیجیے۔ انھوں نے کہا:’’میں نے انھیں ایک دفعہ آخرت کی گرفت پر متوجہ کر دیا ہے۔ جو لوگ اس سے بھی متوجہ نہیں ہوتے اب ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے۔ اب فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔ میں نے معاملہ اللہ کے حوالے کر دیا۔‘‘ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک بہت مشہور اور معروف بزرگ نے وہی بات زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کر دی جس کی بنیاد پر پہلے صاحب علم کے خلاف مہم چلائی گئی تھی۔ مگر اس دفعہ سب خاموش رہے۔ کسی کے دل میں حق پرستی کا جذبہ بیدار نہیں ہوا۔ کسی نے ان بزرگ کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی۔ ان پر الزام و بہتان کی بارش نہیں کی۔ بظاہر بات ختم ہوگئی۔ مگر دراصل یہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ بات یہاں سے شروع ہوئی ہے۔ اس لیے کہ کہنے والے بھول جاتے ہیں۔ لکھنے والے کو یاد نہیں رہتا۔ مگر خدا کے فرشتے ہر چیز لکھ لیتے ہیں۔ فرشتے ایسی ہر روداد کو قیامت کے دن مالک کائنات کے حضور پیش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہر جھوٹ، الزام، بہتان، بدگمانی ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ روز قیامت اس طرح کے معاندین جب پکڑے جائیں گے تو اپنی ہر اخلاقی خرابی اور علمی بددیانتی کی آخری توجیہہ روز قیامت یہ کہہ کر کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم نے جو کیا غیرت حق میں کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ایسے لوگ بظاہر حق کا نام لیتے ہیں، لیکن دراصل اپنے عناد اور تکبر کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی عناد اور تکبر کو بے نقاب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ ایسے واقعات کو جنم دیتی ہے جس کا ذکر پیچھے گزرا ہے۔
چنانچہ یہ مقدمہ جب روز قیامت پیش ہوگا تو لوگوں کو پہلے مرحلے میں بتایا جائے گا کہ تم نے علمی اور اخلاقی طور پر کیا ڈنڈی ماری تھی۔ یہ لوگ پکڑ کے خوف اور غضب الٰہی سے بچنے کے لیے غیرت حق کی آڑ میں پناہ لینے کی کوشش کریں گے۔ وہ کہیں گے ہم سے غلطی تو ہوئی تھی مگر جو کیا وہ آپ کے دین کی غیرت میں آکر کیا۔ ایسے میں یہ واقعہ پیش کر کے پوچھا جائے گا کہ تم لوگ پہلی دفعہ اگر حق کے لیے اٹھے تھے تو دوسری دفعہ کیوں خاموش ہوگئے تھے؟
ظاہر ہے کہ اس سوال کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ پہلی دفعہ اگر اٹھے تھے تو غیرت حق میں نہیں اٹھے تھے، بلکہ تعصب کی نفسیات میں مبتلا ہونے کی بنا پر اٹھے تھے۔ جبکہ دوسری دفعہ جس بزرگ نے وہی بات زیادہ وضاحت سے کہی تھی، ان کے خلاف تعصبات نہیں تھے، اس لیے انھیں بدنام کرنے کی کوئی مہم نہیں چلائی گئی۔ الزام و بہتان کے مرچ مصالحے سے مزین کوئی تحریر وجود میں نہیں آئی۔ لوگ خاموشی سے اس کی بات کو پی گئے۔
مذہب کے نام پر کھڑے ایسے لوگ نہیں جانتے کہ کسی صاحب علم کو اس طرح بدنام کرنے کی کوشش کر کے وہ خود کو کتنے بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ایسے لوگ نہیں جانتے کہ جہنم کی آگ کس طرح انسانی کھال کو چٹ کر جاتی ہے۔ مگر افسوس کہ اس روز اُس بھڑکتی ہوئی آگ کی نذر ہونے والے بہت سارے لوگ وہ ہوں گے جنھیں دوسروں کو جہنم میں پہنچانے کا بہت شوق تھا۔ جنھیں خدا کی طرف بلانے والوں کو گمراہ ثابت کرنے کا بہت شوق تھا۔ کیسا عجیب ہے یہ شوق اور کتنا عبرتناک ہوگا یہ انجام۔