صاحب الرائے ۔ ابویحییٰ
پاکستانی قوم اس اعتبار سے بڑی زرخیر ہے کہ جتنے ’’صاحب الرائے‘‘ لوگ اس قوم میں پائے جاتے ہیں، شاید دنیا کی کسی قوم میں نہیں پائے جاتے۔ یہ شاید دنیا کی واحد قوم ہے جس میں ایک مزدور، پھیری لگانے والا بھی ہر معاملے میں صاحب الرائے ہوتا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صاحب الرائے ہونے کی واحد شرط یہ ہے کہ رائے دینے والے کے جذبات بے قابو ہوجائیں۔ جذبات سے مغلوب ہونے کے بعد ہمارے ہاں کے صاحب الرائے دنیا کے کسی بھی معاملے میں پورے اعتماد سے گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی سیاست سے لے کر قرآن و حدیث کے فہم تک کسی بھی مسئلے پہ ایسے گفتگو کرتے ہیں کہ گویا ساری زندگی اسی مسئلے پر فکر و تحقیق کرتے ہوئے گزری ہے۔
جذباتی ’’صاحب الرائے‘‘ سے زیادہ اعتماد ان لوگوں کو ہوتا ہے جو سطحی انداز اور ابتدائی سطح پر اپنے ہی جذباتی نقطہ نظرکی تائید میں کچھ چیزیں پڑھ یا سن لیتے ہیں۔ اس کے بعد جس اعتماد سے گفتگو ہوتی ہے اس کا حال نہ پوچھیے ۔کس طرح کسی علم و فن کے ماہرین جن کی ساری زندگی علم و تحقیق میں گزرتی ہے، ان کی پر مغز باتوں کو چٹکیوں میں اڑایا جاتا ہے اور کس طرح برہنہ حقائق کو اپنے جذبات کے خلاف پا کر ان کا چہرہ ہی بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صاحب الرائے ہونا یا کسی معاملے میں رائے دینا بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات و تعصبات سے بلند ہوکر خالص علمی انداز میں غور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اسے معاملے کے تمام پہلوؤں سے آگاہی حاصل ہو۔ وہ کسی کے لکھے یا بولے ہوئے الفاظ کا تجزیہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ کسی صورتحال کے پس منظر اور پیش منظر سے بخوبی واقف ہو۔ جو شخص یہ صلاحیت نہیں رکھتا اسے خاموش رہنا چاہیے۔ اس کے سوا ہر راستہ روز قیامت اپنی جوابدہی میں اضافے کا راستہ ہے۔