رکشے کی پھٹ پھٹ اور سسرال کی جھنجھٹ ۔ فرح رضوان
ماں جی صحن میں پودوں کو پانی دے رہی تھیں کہ پھٹ پھٹاتا ہوا رکشہ بالکل گھر کے دروازے سے آن لگا۔ دروازے کی جھی سے انہوں نے جھانک کر جو دیکھا تو ماہا کو صبح صبح دیکھ کر انکا ماتھا ٹھنکا۔ اپنی اس بیٹی کی معاملات میں جلد باز، کام میں سست، جی بھر کر خودسر اور نادان طبیعت کے باعث ان کا دل ویسے ہی اس کی طرف سے کھٹکتا ہی رہتا تھا اور بلا کسی پیشگی اطلاع کے صبح صبح یوں رکشہ پکڑ کر آجانا ویسے ہی کئی سوال اٹھا رہا تھا۔ انہوں نے لپک کر دروازہ کھولا تو ماہا رکشے میں بیٹھی اس کے ڈرائیور سے بحث میں الجھی ہوئی تھی کہ جب وہ کام کرنے نکلا ہے تو اس کے پاس ہزار کا کھلا کیوں نہیں موجود۔ غریب رکشے والا ابھی ان جوابات پر روشنی ڈال ہی رہا تھا کہ ماں جی بڑا سا چادر جیسا دوپٹہ سر پر جماتی سلیقے سے لپیٹے ہوئے باہر آگئیں بیٹی سے علیک سلیک کے بعد رکشے والے سے بولیں۔ اے بیٹا تم اس پھٹ پھٹی کو تو ذرا دم کے لیے بند کر دو کان پڑی آواز نہیں آتی مجھے تو۔ رکشے والے نے سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً ہی انجن بند کر ڈالا، اور بڑی ترنگ سے بولا لو امّاں اور حکم؟ ماں جی نے بھی لمحہ ضائع کیے بغیر اسے کہا بیٹا ذرا دیر یہ دروازے کے ساتھ والی بینچ پر بیٹھ جاؤ جب تک چائے پی لو تب تک ملازم قریبی دکان سے کھلے پیسے لے آتا ہے۔ انہوں نے فوراً ہی ملازم کے ہاتھوں اسے ناشتے کی ٹرے بھجوا دی۔ رکشے والے کے تو جیسے بھاگوں چھینکا ہی ٹوٹ گیا۔ اس سے پہلے کہ ماہا گھر میں موجود بھاوج اور چھوٹے بھتیجے سے ملنے ملانے میں وقت لگاتی ماں جی اس کا ہاتھ تھامے ساتھ والی بیٹھک میں اسے گھسیٹ لائیں اور حیران ہو کر پوچھا سب خیریت تو ہے میری بچی اس طرح کیسے آگئی؟
ماہا نے جواباً بہت ہی فاتحانہ انداز میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا ’’میری نندوں کا تو اپنے سسرال میں دل ہی نہیں لگتا بے بی باجی کے بیٹے کی آج چھٹی تھی تو جھٹ ہمارے گھر آگئیں، مجھے تو ایسی آگ لگی بغیر کسی سے کچھ کہے رکشہ پکڑا اور ادھر آگئی۔‘‘ اس کے جواب سے ماں جی کو یہ تو بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ آگ لگنا کسے کہتے ہیں، لیکن فی الوقت ان کا غصے سے کھولتا دماغ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ان کو زیادہ غصہ ماہا پر آرہا ہے یا اپنے سسر اور شوہر کے ان تمام تر بے جا لاڈ پر کہ جس کی وجہ سے ماہا بڑی ہوتے ہوتے ایسی ہوگئی تھی۔ بہرحال ان کے پاس ان باتوں کا وقت نہ تھا رکشے والے کے ناشتہ ختم ہونے سے قبل ان کو معاملہ نمٹانا تھا۔ انہوں نے کافی سخت لہجے میں اس سے پوچھا تمھاری نند تمہارے گھر آگئی تو تم اٹھ کر یہاں چلی آئی بغیر یہ سوچے کہ تمھاری آمد پر یہی باہر کھڑا رکشہ پکڑ کر تمھاری بھابھی اپنی ماں کے گھر چلی جائے تو تم کو کیسا لگے گا؟ گھر ہے یا تاش کے پتوں کا گھروندا کہ ایک کو ذرا دھکا لگا تو آخر تک سب گرتے چلے گئے، کبھی زندگی میں اپنی ماں کو مہمانوں سے ایسا برتاؤ کرتے دیکھا ہے؟ یاد رکھنا! مہمان کی تکریم، اس کی عزت ایمان کا حصہ ہے، فون اور ڈراموں سے دھیان ہٹے تو ایمان کو سمجھو ناں تم۔ کچھ دیر اس کے اس عمل سے پیدا ہو جانے والے حالات کی اونچ نیچ سمجھاتی رہیں جب دیکھا کہ بیٹی کو بات سمجھ آگئی ہے تو۔ ۔ ۔ پھر تھوڑا نرم ہوتی ہوئی بولیں میری بیٹی تو بہت سمجھدار ہے، کہ اتنی سی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ ایک دن تو ہم سب کو اللہ تعالیٰ کا مہمان بننا ہی ہے سوچو ذرا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی مہمان سے اس روز بات بھی نہ کرے غصہ ہو جائے اس کے آنے پر۔ ۔ ۔ ماہا نے ان کو بات مکمل نہ کرنے دی اور نم آنکھوں کے ساتھ ماں سے بولی ’’ماں جی اب کیا کروں؟‘‘
ماں جی کا چہرہ یک دم کھل اٹھا اسے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے فریزر کی طرف لپکیں، دو پیکٹ سموسے اور کباب کے نکال کر بیٹی کو پکڑا کر بولیں بس یہ سرپرائز اب اپنی ساس اور نند کو کس طرح دینا ہے یہ تمھارا کام ہے۔ ماہا نے ماں کی بات سمجھتے ہوئے ان کو خوش ہو کر گلے لگایا مدھم سی آواز میں سوری کہا جلدی سے کچن میں کام کرتی بھاوج سے مل کر دروازے کی جانب لپکی۔ ماں جی بھی پیچھے ہولیں۔ رکشے والا پلیٹ میں چمٹا ہوا جام چاٹنے میں مصروف تھا انہیں دیکھ کر کچھ خفگی اور کچھ شکر گزار لہجے میں بولا ’’امّاں دیر کرا دی تم نے بہت، اب سواری بھی ملے کہ نہیں اس ٹیم پر ۔‘‘ماہا نے کہا ’’ہے سواری۔ ۔ ۔ جہاں سے لیا تھا وہاں واپس بھی جانا ہے۔‘‘ رکشے والے نے یہ سنتے ہی چابکدستی سے رکشے میں بیٹھ کر لیور کھینچ ڈالا۔ ۔ ۔
اللہ تعالیٰ کے ڈھیروں شکر کے ساتھ اس کی حفاظت میں اپنی نگاہوں سے دور ہوتی بیٹی کو دیکھتے ہوئے ماں جی گھر کا دروازہ بند کرتے ہوئے مسکرا رہی تھیں کہ رکشے کی پھٹ پھٹ انہیں زندگی بھر کبھی اتنی سریلی نہ لگی تھی جتنی اس دم لگ رہی تھی۔