قرآن کی دعوت: راہِ نجات ۔ ابویحییٰ
دورِ جدید میں دین کے حوالے سے علمی اور عملی دونوں پہلوؤں سے بے پناہ کام ہوا ہے۔ خاص طور پر عملی کاموں کا معاملہ تو یہ ہے کہ دین کے نام پر جان، مال اور عزت و آبرو کی ان گنت قربانیوں کے ساتھ لوگوں نے جس طرح اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کیا، اپنا پیسہ، وقت، صلاحیت حتیٰ کہ پوری زندگی اس کام میں لگائی اور جو دکھ اور مصائب اس راہ میں جھیلے ہیں؛ اس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
یہ ماضی قریب کا ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ اِس وقت بھی لاکھوں لوگ اس مقصد کے لیے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ احیائے اسلام کا جو خواب دو سو برس سے دیکھا جارہا ہے، اس کی کوئی تعبیر کہیں نظر نہیں آتی۔ سیاسی غلبہ تو ایک طرف رہا، علم و اخلاق کے معاملے میں بھی ہماری پستی دنیا بھر سے بڑھی ہوئی ہے۔ ایسے میں امت کا درد رکھنے والے ہر مخلص انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس صورتحال کا سبب کیا ہے؟ ہم نے پہلے بھی کئی دفعہ اس موضوع پر قلم اٹھا کر لوگوں کو توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ آج بھی ان شاء اللہ اس تحریر کے ذریعے سے یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس ضمن میں اصل غلطی کہاں ہو رہی ہے۔
اصل مسئلہ کیا ہے؟
موجودہ جدوجہد کا آغاز یورپی اقوام کے اس عالمی غلبے سے ہوتا ہے جو تقریباً دو صدی پہلے شروع ہوا اور بتدریج بڑھتا چلا گیا۔ ہماری فکری قیادت نے اس معاملے کو دو قوموں کے ایک جھگڑے کے زاویے سے دیکھا۔ چنانچہ ان کا زاویہ نظر یہ بنا کہ ہم مظلوم ہیں اور ایک دوسری قوم ظالم ہے جس نے باہر سے آکر ہمارے ملکوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس زاویہ نظر کے تحت آج کے دن تک ہمارا نظریہ یہی ہے کہ وہ ظالم اور ہم مظلوم میں۔ وہ غاصب اور ہم مجبور ہیں۔ وہ غلط اور ہم درست ہیں۔
ہماری فکری قیادت اگر اس معاملے کو دو قوموں کے بجائے اپنے اور خدا کے زاویے سے دیکھتی تو ان کا ردعمل بالکل جدا ہوتا۔ وہ جب اس پہلو سے اسلام کی بنیادی تعلیمات کی طرف لوٹتے تو معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی کسی قوم سے کوئی رشتہ داری نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی بھی قوم پر خالص میرٹ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ کوئی قوم لاکھ خود کو خدا کی چہیتی حتیٰ کہ خدا کی اولاد کی طرح سمجھے، لیکن اس کے ایسا سمجھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ قرآن مجید نے اس معاملے کو بالکل صاف بیان کر دیا۔ مثلاً یہود و نصاریٰ کی اسی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سورہ المائدہ میں ارشاد فرماتے ہیں۔
’’یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کی چہیتے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ پھر وہ تمھیں تمھارے گناہوں پر سزا کیوں دیتا ہے۔(ہرگز نہیں) بلکہ تم اس کے پیدا کیے ہوئے انسانوں میں سے انسان ہی ہو‘‘،(المائدہ18:5)۔
قرآن مجید نے ابتدائی سورتوں یعنی سورہ بقرہ سے مائدہ تک سابقہ امتوں کے پس منظر میں اس مسئلے پر بہت تفصیل سے کلام کیا ہے کہ جب کوئی قوم خدا کے نام پر کھڑی ہوتی ہے تو پھر نافرمانی کی شکل میں اسی دنیا میں اس پر سزا مسلط ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں نے اسے یہود و نصاریٰ ہی کا معاملہ سمجھا۔ جبکہ درحقیقت یہ ایک اصولی قانون تھا جو قرآن کے آغازمیں بیان ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ مسلمان اس آئینے میں اپنی شکل دیکھتے رہیں۔ وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں بلکہ یہ سمجھ لیں کہ جس طرح یہ قانون یہود و نصاریٰ کے لیے درست تھا اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی درست ہے۔
قرآن مجید کی اس روشنی میں اگر جائزہ لیا جاتا اور مسلمانوں کے معروضی حالات کو نگاہ میں رکھا جاتا تو صاف معلوم ہوجاتا کہ جو کچھ دو صدیوں سے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ایک سزا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سزا کی سادہ وجہ یہ ہے مسلمان ختم نبوت کے بعد واحد ذریعہ ہیں جس کے ذریعہ سے دنیا کو اللہ کی مرضی معلوم ہوسکتی ہے۔ مسلمان اگر دنیا کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچاتے اور نہ اپنے عمل سے کوئی صالح نمونہ ہی پیش کرتے ہیں تو پھر وہ اس بات کے مستحق ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا کے سامنے عبرت کا نمونہ بنا دیں۔ مسلمان اگر خود دنیا کے سامنے حق کی شہادت نہیں دیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو عبرت کا نشان بنا کر ان کے ذریعے سے حق کی شہادت قائم کر دیں گے۔ چنانچہ اسی پس منظر میں مسلمانوں کی اخلاقی پستی کی بنیاد پر ان کو سزا مل رہی ہے۔ مگر جیسا کہ یہود و نصاریٰ کے معاملے میں ہوا تھا، یہ سزا دینے کے لیے آسمان سے عذاب نہیں آیا بلکہ انسانوں ہی میں سے لوگوں کو اٹھایا گیا اور ان کو بطور سزا مسلط کر دیا گیا۔
اب اس بات کو اگر سزا سمجھا جاتا تو اصلاح احوال کا جذبہ پیدا ہوتا۔ مگر جب اس معاملے کو دو قوموں کا جھگڑا سمجھا گیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں میں اپنی اصلاح کا داعیہ تو نہ پیدا ہوا البتہ دوسروں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوگئی۔ آج کے دن تک ہماری فکری قیادت اور اس کے زیر اثر طبقات میں مغرب کی شدید نفرت اسی وجہ سے باقی ہے۔ مگر یہ نفرت نہ پہلے کوئی مسئلہ حل کرسکی تھی نہ اب کرسکی ہے۔ ہوا صرف یہ ہے کہ سزا دینے والی قومیں وقفے وقفے سے بدلتی رہی ہیں۔ پہلے یہ کام یورپی اقوام نے کیا، پھر سوویت یونین مسلط ہوگیا اور اب امریکہ یہ کام کررہا ہے۔ ہم نے اگر اب بھی اصل مسئلے کی درست تشخیص نہ کی تو آئندہ کوئی اور امریکہ کی جگہ لے لے گا۔ مگرہماری تباہی کے دن ختم نہیں ہوں گے۔ چنانچہ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ یہ قوم پرستانہ فکر جو اپنی اصلاح کے بجائے نفرت کو فروغ دیتی ہے ہماری تباہی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کرے گی۔
اصلاح کرنے والوں کے مسائل
اس دوران میں سارے لوگ ایسے نہیں تھے جو اس مسئلے کو قومی یا سیاسی زاویے سے دیکھتے تھے۔ بلکہ بہت سے لوگ تھے جن کو یہ احساس ہوا کہ سیاسی جدوجہد اصل مسئلے کا کوئی حل نہیں اور اس کے لیے مسلمانوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ مگر بدقسمتی سے ان کی جدوجہد میں کئی طرح کی خرابیاں در آئیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ اس نوعیت کی جدوجہد کرنے والے مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ ان کا فرقہ ان کے لیے دین کے ہم معنی بن گیا۔ وہی ان کی شناخت قرار پایا۔ اسی کی طرف لوگوں کو بلانا ان کا مقصد قرار پایا۔ یوں ایک اصلاحی دعوت کے نتیجے میں جو لوگ اٹھے وہ فرقہ واریت کے شکار اور اپنے تعصبات کے اسیر بن کر سامنے آئے۔
ایک دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے اس چیز پر غور نہیں کیا کہ یہ امت صدیوں سے تقلید کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ امت کا پورا علمی، فکری، قانونی اور استدلالی ڈھانچہ زرعی دور میں وجود میں آیا ہے۔ اور جس طرح زرعی دور میں استعمال ہونے والے تیر و تفنگ کے ساتھ صنعتی دور کی کسی جدید فوج کا مقابلہ نہیں ہوسکتا، اسی طرح قدیم فکری ڈھانچے کے ساتھ دور جدید کے عملی مسائل کا سامنا کرنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ جو لوگ اصلاح کے علمبردار بن کر کھڑے ہوئے، ان کے دینی جذبے کے باوجود عملی چیزوں میں ان کا رویہ ایسا تھا کہ ذہین اور باصلاحیت لوگ دین کو روح عصر کے خلاف اور دورِ جدید میں ناقابل عمل سمجھ کرکے اس سے دور رہے۔
ایک تیسرا مسئلہ یہ ہوا کہ گرچہ دین اسلام ایک محفوظ دین ہے، اس کی تعلیمات، اس کی بنیادی کتاب، اس کے نبی کی سیرت ہر چیز محفوظ ہے۔ اس میں تبدیلی اور تحریف کرنا ممکن نہیں ہے۔ مگر یہ ضرور ممکن ہے اور یہ ہوا بھی ہے کہ اس دین میں کئی اضافے ہوگئے۔ اصل، آسمانی اور ابدی دین کے ساتھ بہت کچھ وہ بھی موجود ہے جو وقتی، زمانی اور انسانی کام تھا۔ لوگوں نے ان دو چیزوں کے فرق کو سمجھے بغیر اس پورے کو دین کی دعوت بنا کر پیش کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ظاہری اور سطحی چیزیں حق و باطل اور نیکی وبدی کا معیار قرار پائیں۔ وہ حقیقی تبدیلی جو دین انسان میں پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ دنیا کے سامنے نہ آسکی۔
جن لوگوں نے ان غلطیوں کا ادراک کیا اور خود کو ان سے بچانے کی کوشش کی ان میں ایک اور مسئلہ پیش ہوگیا۔ وہ یہ کہ دینی مطالبات میں یہ لوگ وہ توازن برقرار نہ رکھ سکے جس کے نتیجے میں اس دینی دعوت کی ساری خوبصورتی اور جمال وجود میں آتا ہے۔ ایسے لوگ کبھی دوسرے پر تنقید کرتے ہوئے استہزاء پر اتر آتے ہیں۔ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں اور خود کو بھول جاتے ہیں۔ کبھی دعوت و اصلاح کے کام کے لیے کھڑے ہوتے ہوئے اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ کبھی دین کی رعایتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے عملی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور کہیں اصلاح کرنے والے ہستیوں کی شخصیت کے سحر کا اس طرح شکار ہوتے ہیں کہ خدا کے بجائے خدا کی طرف بلانے والے کے بندے بن جاتے ہیں۔
ان تمام غلطیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی اصلاح کے جذبے کے باوجود وہ کوشش جو بہت بڑے پیمانے پر برپا ہوئی اور جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ دین سے متعلق ہوئے، معاشرے میں فرقہ واریت، جمود، ظاہر پرستانہ سطحیت اور عدم توازن میں اضافے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔
قرآن مجید: مسئلے کا حل
زمانہ قدیم میں قوموں کی اصلاح کے لیے انبیاء و رسل آتے تھے۔ ختم نبوت کے بعد یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے۔ تاہم ختم نبوت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑا اور خصوصی اہتمام یہ کیا ہے کہ اپنا کلام اپنی آخری کتاب کی شکل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ اب یہ کتاب گویا کہ خدا اور اس کے رسول کے قائم مقام ہے۔ اس کتاب کی شکل میں اللہ تعالیٰ اپنا مدعا واضح الفاظ میں بیان کر دیتے ہیں۔
اس حقیقت کو جان لینے کے بعد جب قرآن مجید کی طرف خالی الذہن ہوکر ہدایت پانے کے لیے رجوع کیا جاتا ہے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ ایمان و اخلاق کی دعوت کو اللہ تعالیٰ اصل مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ دعوت خدا کو زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بنانے کی دعوت ہے۔ یہ دعوت خدا کے حضور پیشی اور وہاں کی کامیابی کو زندگی کا سب سے بڑا ہدف بنانے کی دعوت ہے۔ یہ دعوت اِس دنیا میں اپنے آپ کو جسمانی، روحانی اور اخلاقی گندگی سے بچا کر خود کو پاکیزہ رکھنے کی دعوت ہے۔ اس دعوت کے نتیجے میں اعلیٰ انسان جنم لیتے ہیں۔ سچائی ایسے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتی ہے۔ دیانت و امانت ان کا وصف ہوتی ہے۔ حیا اور عفت ان کا سرمایہ ہوتی ہے۔ صبر اور معقولیت ان کی شناخت ہوتی ہے۔ رحم اور ہمدردی ان کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ دنیا کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ان کا اصل ہدف اپنی ذات ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کو حق پہنچانے کے لیے بیتاب رہتے ہیں، مگر خود کو کبھی نہیں بھولتے۔ یوں ایسے لوگ تعصب، جمود، سطحیت، غفلت، شخصیت پرستی وغیرہ جیسی ہر کمزوری سے پاک ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے فکر و عمل کی اساس قرآن کی آفاقی دعوت پر رکھ کر قرآن کے مطلوب انسان بن جاتے ہیں۔
ایسے اعلیٰ انسان جب کسی معاشرے میں پیدا ہونے لگیں تو آہستہ آہستہ خیر عام ہوتی ہے۔ اس سے لوگوں کی آخرت تو بلاشبہ اچھی ہوتی ہے مگر اس سے پہلے دنیا بھی اچھی ہوجاتی ہے۔ دنیا نے صحابہ کرام کی شکل میں ایسے ہی اعلیٰ انسانوں کو دیکھا تھا۔ یہی وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بام عروج بخشا اور ان کے طفیل آنے والی کئی صدیوں تک مسلمان دنیا کی امامت کے منصب پر فائز رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی اسی دعوت میں آج بھی ہمارے لیے راہ نجات ہے۔ مگر بدقسمتی سے مذہب کے نام لیوا ایسی کسی آواز کو سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنی قوم پرستانہ فکر، فرقہ وارانہ سوچ، جمود اور سطحیت سے اوپر اٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ قرآن کو خدا کا کلام ماننے کے باجود اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لیے تیا رنہیں۔ اس کو دین کا محور و مرکز بنانے پر آمادہ نہیں۔ اس کو میزان مان کر اپنی ہر فکر کو اس کی ترازو پر تولنے اور اس کو فرقان مان کر اپنے ہر فلسفہ کو اس کی کسوٹی پر پرکھنے کو تیار نہیں۔
ایسے میں ضرورت ہے کہ کچھ اور لوگ اٹھیں جو خواہش اور تعصب کے اس جنگل میں سچی بندگی، صدق و وفا اور حمیت دین کے نئے پھول کھلائیں۔ جو لوگ آج یہ پھول بنیں گے، کل قیامت کے دن انھی کو جنت کے باغوں میں آباد کیا جائے گا۔ مگر اس سے قبل اس دنیا میں ان کے صدقے میں باقی قوم پر رحم کیا جائے گا۔ تاہم قرآن مجید پر مبنی ایمان و اخلاق کی یہ صدا اگر رد کر دی گئی تو پھر خدا کا قہر فیصلہ کن طور پر بھڑکے گا۔ وہ عذاب آئے گا کہ لوگ ماضی کی ہر مثال بھول جائیں گے۔
ہم خدا کے قہر کے بھڑکنے سے قبل ہی اس کی پناہ مانگتے ہیں اور اس سے اس کی رحمت اور مغفرت کے طلبگار ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہمارا رب بڑا غفور و رحیم ہے۔
جہاں رہیں مخلوق خدا کے لیے باعثِ رحمت بن کر رہیں، باعثِ آزار نہ بنیں۔