Take a fresh look at your lifestyle.

چوتھا صنعتی انقلاب یا آٹومیشن ایج ۔ ابویحییٰ

چوتھا صنعتی انقلاب یا آٹومیشن ایج
وہاٹس ایپ پر ایک ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس وڈیو میں بتایا گیا تھا کہ سن 2050 میں دنیا بھر کے ممالک کے لوگوں کی زندگی اور لائف اسٹائل کس قسم کا ہوگا۔ اس میں ٹیکنالوجی کی معراج کو دکھایا گیا تھا کہ کس طرح لوگ جدید ٹیکنالوجی کے سہارے زندگی کو بہتر سے بہتر بنا چکے ہوں گے۔ ویڈیو کے آخر میں پاکستان کو دکھایا گیا تھا جہاں پریشان حال لوگ بجلی کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔

یہ بظاہر ایک لطیفہ ہے، مگر ہمارے ہاں لوگ ابھی تک جن سیاسی، سماجی، مذہبی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، یہ ان کا ایک بہترین بیان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن مسائل سے بیشتر دنیا پچھلی صدی میں نمٹ چکی ہے، وہ آج تک ہمارے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ مقبول کرنٹ افیئرز یا حالات حاضرہ کے پروگرام ہیں۔ اس کا سبب یہی ہے کہ ہمارے حال کے مسائل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے کہ لوگ اس سے آگے بڑھ کر مستقبل کے بارے میں کچھ سوچ سکیں۔

ایسے میں جب ہمارے وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورہ چین میں ایک تقریر میں چوتھے صنعتی انقلاب کی آمد کا ذکر کیا تو بیشتر لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ چوتھا صنعتی انقلاب کس بلا کا نام ہے۔ جو لوگ کسی درجہ میں اس سے واقف ہیں وہ بھی ان مضمرات کو نہیں سمجھتے جو آنے والا زمانہ اپنے ساتھ لے کر آرہا ہے۔ آج میرے پیش نظر یہ ہے کہ ان چیزوں پر کچھ تفصیل کے ساتھ گفتگو کرلی جائے۔

صنعتی انقلاب اور اس کے اثرات
چوتھے صنعتی انقلاب کو سمجھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ صنعتی انقلاب کیا ہے۔ انسانی تاریخ کے آغازمیں انسانوں کے پاس خوراک کے حصول کا واحد ذریعہ یہ تھا کہ وہ جانوروں کا شکار کریں اور پھل پودوں کو جمع کرکے اپنی زندگی کا نظام چلائیں۔ اس دور کو عہد شکار یا انگریزی میں Age of Hunter-Gatherer کہا جاتا ہے۔ ایک طویل عرصہ کے بعد انسانوں نے بڑے پیمانے پر پودوں کو خود بونا اور فصل کاٹنا سیکھا تو زرعی دور شروع ہوا۔ اس کے بعد تین صدی قبل صنعتی انقلاب آیا جب انسانوں نے مشین کو ذریعہ معاش بنا لیا۔

ان میں سے ہر دور کے اپنے اثرات اور نتائج تھے جو انسانی سماج اور افراد پر مرتب ہوئے۔ یہ اثرات و نتائج اپنی ذات میں ایک تفصیلی موضوع ہے لیکن سمجھانے کے لیے ایک مثال عرض کر رہا ہوں کہ عہد شکار اور عہد زراعت میں ان ادوار کے تقاضوں کی بنا پر مرد و عورت کا دائرہ کار اور تعلقات کا ایک خاص ڈھانچہ وجود میں آیا۔ ان دونوں ادوار میں چونکہ حیوانی طاقت ہی اصل معیار قوت تھا اس لیے عورت کی سماجی حیثیت بہت کمزور ہوگئی اور اس کا دائرہ کار بہت محدود ہوگیا۔ صنعتی انقلاب میں چونکہ حیوانی طاقت کی جگہ مشینی طاقت نے لے لی اس لیے خواتین کی حیثیت بدلنا شروع ہوئی اور اب اس انفارمیشن ایج میں عورتوں کی حیثیت میں بہت فرق آچکا ہے۔ اپنے معاشرے کو تو چھوڑیے خود ٹھیٹھ مذہبی معاشروں، جیسے سعودی عرب میں بھی ہر جگہ مردوں کے ساتھ خواتین ملازمتوں پر نظر آتی ہیں۔ ان اثرات کی ایک اور مثال ریل کی ایجاد ہے جس نے نہ صرف صنعتی دور میں سفر کے تصور کو بدل کر رکھ دیا بلکہ باہمی تعلقات، رابطوں، رہائش اور آبادی کے معاملات کو بدل ڈالا۔ اسی طرح صنعتی دور میں شہروں کی طرف بڑی تعداد میں ہجرت نے بہت سی سماجی، معاشی اور سیاسی تبدیلیاں پیدا کی تھیں۔ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ صنعتی دور ذرائع پیداوار میں تبدیلی ہی کا نام نہیں بلکہ اس کے کہیں زیادہ گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

تاہم اصل بات یہ بیان کرنا مقصود تھی کہ صنعتی انقلاب نے دنیا میں ایک زبردست تبدیلی پیدا کردی اور مشین نے حیوانی طاقت کی جگہ لے لی۔ یہ پہلا صنعتی انقلاب تھا جس میں اسٹیم انجن کی طاقت سے مشین چلتی تھی۔ دوسرا صنعتی دور وہ تھا جس میں اسٹیم انجن کی جگہ بجلی نے لے لی اور بڑے پیمانے پر خود کار مشینوں نے پیداواری عمل کو بہت تیز اور پیداوار کو سستا کر دیا۔ تیسرا صنعتی دور وہ تھا جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جب کمپیوٹر کی ایجاد نے نہ صرف پیداواری عمل کو مزید بہتر بنا دیا بلکہ خود ایک نئے دور کا آغاز کر دیا۔ یعنی انفارمیشن ایج کا جس کے نتیجے میں پوری دنیا حقیقی معنوں میں ایک گلوبل ویلج بن گئی۔

اس انفارمیشن ایج کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے کے بیشتر لوگ جو ابھی تک عملی طور پر باقی دنیا کے برعکس زرعی دور میں جی رہے تھے، تیزی سے جدید دنیا سے متاثر ہونے لگے۔ ہمارے معاشرے میں تبدیلی کا عمل شروع ہوگیا جو یورپ میں نشاۃ ثانیہ اور عہد روشن خیالی کے دور میں شروع ہوا تھا۔ جو عمل وہاں صدیوں میں ہوا تھا یہاں اب عشروں میں وہ عمل پورا ہورہا ہے۔

چوتھا صنعتی انقلاب کیا ہے؟
ایسے میں دنیا جس چوتھے صنعتی دورمیں داخل ہورہی ہے، اس کے اثرات بھی بہت گہرے اور ہمہ گیر ہوں گے۔ مگر پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ چوتھا دور ہے کیا۔ یہ چوتھا صنعتی دور وہ ہے جس میں مصنوعی ذہانت (AI) اور روبوٹکس کی ترقی کے بعد مشینیں ہماری زندگی کا عملی نظام سنبھالنا شروع کریں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ان گنت آلات کے ساتھ ہمہ وقت بذریعہ انٹرنیٹ پوری دنیا سے جڑے ہوئے ہوں گے۔ اس کی ایک سادہ ترین مثال آٹومیٹک کار ہے جس میں مسافر صرف اپنی منزل کی نشاندہی کرکے اطمینان سے بیٹھ جائے گا اور کار خودبخود اس کی منزل مقصود پر پہنچ کر رک جائے گی۔ یہ مشینیں ہمارے دفاتر اور گھروں کا ہی نظام نہیں سنبھالیں گی بلکہ خود نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمارے کپڑوں اور جسم کے اندر تک نصب ہوکر ہمارے بہت سے کام کر رہی ہوں گی۔ نینو ٹیکنالوجی کا نام جن لوگوں کے لیے نامانوس ہے ان کے لیے اس کی وضاحت کرتا چلوں کہ یہ ایٹم اور مالیکیول کی سطح پر جاکر مادے سے انتہائی چھوٹی مصنوعات بنانے کا عمل ہے۔ نینو میٹر کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک میٹر کا ایک ارب واں حصہ۔ اخبار کے ایک صفحے جیسی پتلی چیز جس کی موٹائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، اس میں ایک لاکھ نینو میٹر آسکتے ہیں۔ چنانچہ اس ٹیکنالوجی میں اتنی چھوٹی سطح پر مصنوعات بنائی جارہی ہیں اور انھیں دیگر مادے کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا ہے جہاں وہ بہت سے کام کرتی ہیں۔ مثلاً نینوٹیکنالوجی کی مدد سے ایسے شیشے بنائے جارہے ہیں جس میں موجود نینو ذرات شیشے پر پڑنے والے پانی کو خود صاف کر دیتے ہیں۔ یوں شیشہ پانی سے دھندلا نہیں ہوتا بلکہ بارش کا پانی برسنے کے باوجود کھڑکیاں ایسے صاف رہتی ہیں جیسے ان کو کپڑے سے صاف کیا گیا ہو۔ اب آپ ایسے گھر کا تصور کیجیے جہاں آپ اپنے گھر کی بند کھڑکیوں کے صاف شیشوں سے باہر کی بارش سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ بارش کا پانی کمرے میں آکر اندر کی چیزوں کو خراب نہ کرے، اس مقصد کے لیے آپ نے کھڑکی کا شیشہ بند کر دیا، مگر وہ پانی سے دھندلا نہیں رہا۔ اسی طرح اس ٹیکنالوجی سے ایسے کپڑے بھی بنائے جارہے ہیں جن پر داغ دھبے نشان نہیں چھوڑ پاتے۔ یا ہسپتالوں اور گھروں میں صفائی کے لیے ایسے کپڑے بنائے جارہے ہیں جو کسی قسم کے جراثیم کی فوراً نشاندہی کر دیں گے۔

چوتھے صنعتی دور کے اثرات
اس نئے دور کے اثرات اتنے گہرے اور ہمہ جہتی ہوں گے جن کا ادراک بھی کرنا اس وقت مشکل ہے۔ ہمارے ہاں تو لوگ ابھی تک صنعتی اور انفارمیشن ایج کے اثرات کو پوری طرح نہیں سمجھ پارہے تو آنے والے دورجسے میں آٹومیشن ایج کہتا ہوں، اس کے اثرات کو سمجھنا یا ان کی تیاری کی توقعات باندھنا کوئی عقلمندی نہیں۔ لیکن میرے لیے ان چیزوں کی وضاحت اس پہلو سے بہت اہم ہے کہ دین اور اس کی دعوت پر اس آنے والے دور کے انتہائی گہرے اثرات پڑنے والے ہیں۔ اس لیے کہ دین فکری سطح پر لوگوں کو مخاطب کرتا ہے اور سماجی سطح پر لوگوں کی تربیت کرتا ہے۔ اس لیے ان دونوں سطحوں پر آنے والے عشروں میں سنگین مسائل پیدا ہونے جارہے ہیں۔ گرچہ چوتھے صنعتی دور کے اثرات کا اصل دائرہ تو معیشت، پیداوار، وسائل کی تقسیم وغیرہ ہی ہے۔ لیکن ان کا آخری اثر فکری اور سماجی سطح پر ہوگا۔ اس لیے ان کا ادراک ضروری ہے۔

میں ایک مثبت ذہن کا شخص ہوں۔ اس لیے اس پہلو کو بہت مثبت نظر سے دیکھتا ہوں کہ انفارمیشن ایج اور گلوبل ویلج میں جینے کی بنا پر ہمیں آنے والے دور کی پہلے سے اطلاع ہوچکی ہے۔ ورنہ جس وقت دنیا میں صنعتی انقلاب آیا، ہمیں اس واقعے کی خبر تک نہیں ہوسکی۔ اور خبر اس وقت ہوئی جب ہزاروں میل دور سے آئے مٹھی بھر انگریزوں نے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں حاصل ہونے والی طاقت کی بنا پر پورے برصغیر کو اپنا غلام بنا لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری نادان فکری قیادت آج کے دن تک ہمیں یہ سبق پڑھاتی ہے کہ یہ کچھ غدار تھے جن کی غداری نے ہندوستان کو پلیٹ میں رکھ کر انگریزوں کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ورنہ ان کی مجال تھی کہ ہندوستان میں ہمارے اقتدار کا خاتمہ کرتے۔

آج کے دن تک ہمارے ہاں اسی فکری قیادت کا غلبہ ہے، اس لیے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ کوئی معقول بات آج بھی سنی جاسکے گی۔ البتہ یہ خوش قسمتی ہے کہ اب سیاسی قبضوں کا دور نہیں رہا، اس لیے اس بات کا اندیشہ تو قدرے کم ہے کہ ہم سیاسی طور پر مغلوب ہوں گے لیکن قوی امکان یہی ہے کہ تیسرے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں تہذیبی طور پر اور چوتھے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں معاشی اور سماجی طور پر ہم مکمل مغلوبیت کا شکار ہونے جارہے ہیں۔
گرچہ اگر کوئی معجزہ ہوجائے اور ہمارے ہاں کوئی ایسی معقول قیادت پیدا ہوجائے جو تعلیم کی اہمیت سے واقف ہو تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ ورنہ یہ کم و بیش طے ہے کہ آنے والے دور میں جاہل اقوام کا مقام وہی ہوگا جو گاؤں دیہاتوں میں کمی کمینوں کا ہوتا ہے اور دنیا کے وسائل میں ان کا حصہ سب سے کم ہوگا۔

میں سردست آنے والے دور کے سیاسی اورمعاشی معاملات پر گفتگو نہیں کررہا، یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ صرف اشارتاً یہ عرض کر رہا ہوں کہ پاکستان اور پورے عالم اسلام کا بیشتر انحصار تین چیزوں پر ہے۔ انسانی آبادی، پٹرول اور زراعت۔ آنے والے برسوں میں ان تینوں میں سے پہلی دو چیزیں روبوٹس اورالیکٹرک گاڑیوں کی بنا پر بے وقعت ہوجائیں گی اور رہی زراعت تو جینیٹک انجینئرنگ کی ترقی کے نتیجے میں زرعی پیداوار پر مکمل طور پر ترقی یافتہ ملکوں کا کنٹرول ہوجائے گا۔ لیکن اس بحث کو یہیں چھوڑتے ہوئے میں سردست صرف سماجی اور فکری تبدیلیوں پر کچھ بات کروں گا۔

سماجی اور فکری تبدیلیاں
سب سے پہلے فکری تبدیلی کو لیتے ہیں۔ مذہبی پہلو سے انسانی تاریخ کے تین ادوار ہیں۔ ایک دورشرک جس میں شرک دنیا کی غالب اقوام کی فکر کا مرکزی خیال تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں تمام انبیا تشریف لائے۔ دوسرا دور توحید کا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شروع ہوا۔ اور تیسرا دور الحاد کا ہے جو صنعتی انقلاب کے بعد شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ یہ آخری دور فکری طور پر خدا کے بغیر کائنات کو سمجھنے کا نام ہے اور عملی طور پر خدا سے بے پروا ہوکر زندگی گزارنے کا نام ہے۔ پہلے انفارمیشن ایج نے اس انکار خدا کے تصور کو ہمارے ہر گھر میں پہنچا دیا ہے۔ آنے والا آٹو میشن ایج کا دور مادے اور مشینوں پر انسانوں کا انحصار اتنا زیادہ بڑھا دے گا کہ اکثر لوگوں کو خدا و آخرت کی پروا ہی نہیں رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کا تصور انسانی فطرت میں گرچہ ازل سے ہے، مگر عالم اسباب میں دو چیزیں اس تصور کو زندہ رکھتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر نعمت اس خدا کی عطا ہے جو اسباب سے بلند ہے اور دوسرا ہر مصیبت وہ خدا ٹال سکتا ہے جو تمام تر اسباب سے بلند ہے۔ آنے والا دور اسباب پر انسان کا انحصار اتنا زیادہ بڑھا دے گا کہ فکری طور پر خدا کے تصور کی نفی نہ کی جاسکے، مگر نفسیاتی طور پر لوگ خود کو خدا کی ضرورت سے بے نیاز سمجھنے لگیں گے۔ یوں خدا کا فکری انکار کوئی نہ بھی کرے تب بھی عملی طور پر لوگ اس سے بے نیاز ہوکر زندگی گزاریں گے۔ صبح سے شام تک لوگوں کو پیسے کمانے اور مختلف تفریحات میں اسے خرچ کرنے سے فرصت ہی نہیں ملے گی کہ وہ زندگی کے بلند تر حقائق پر کچھ غور کرسکیں۔

اس فکری عمل کو بدلتے ہوئے سماجی حالات سے تقویت ملے گی۔ ہماری ہر اگلی نسل جو آٹومیشن ایج میں پیدا ہوگی اپنے تصورات اور مشاہدات کے لحاظ سے بالکل جدا ہوگی۔ مثلاً اگلی نسلوں کی بچیاں یہ دیکھیں گی کہ جسمانی طور پر کمزور ہونے کے باوجود صرف اپنی ذہنی صلاحیت کی بنیاد پر وہ ہر میدا ن میں مردوں کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ آٹومیشن ایج میں ہر عورت اپنا کمائے گی اور وہ معاشی طور پر مردوں پر منحصر نہیں رہے گی۔ اس سے بڑھ کر اب ہر جگہ اسے مشینوں کی مدد حاصل ہوگی جو اس کی انگلیوں کے اشارے پر ناچ رہی ہوں گی۔ وہ ان مشینوں کے سہارے ہر میدان میں مردوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرلے گی۔ جس کے بعد بہت سے مروجہ تصورات اپنی جگہ کھو دیں گے۔

اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے آج سے چند عشروں بعد کے اس دور کا تصور کیجیے جب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون اپنے آفس سے اٹھے گی اور اپنی خود کار زمینی یا ہوائی گاڑی(یہ دونوں چیزیں ایجاد ہوچکی ہیں) میں بیٹھ کر صرف ہوم کا لفظ بولے گی اور آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائے گی۔ یہ بے آواز گاڑی اسے آرام سے اس کے گھر پہنچا دے گی۔ گھر کے دورازے پر پہنچ کر وہ اپنی آنکھیں جھپکائے گی اور گھر کا خودکار دروازہ اس کی آنکھوں سے بطور مالکن اسے شناخت کرکے خود بخود کھل جائے گا۔ گھر کے اندر اس کا روبوٹ اس کا استقبال کرنے کے لیے موجود ہوگا جو اس کے ہاتھ میں موجود چیزیں لے کر ان کی جگہ پر رکھے گا اور اس کے لیے چائے یا کافی تیار کرکے اسے فوراً پیش کرے گا۔ ساتھ ساتھ اس کے شوہر اور بچوں سے متعلق ضروری معلومات، فون کالز وغیرہ کی تفصیل اور دیگر ضروری اطلاعات بھی فراہم کرے گا۔ یہ روبوٹ اس کے سارے کام کرنے کے علاوہ ہر پہلو سے اس کا تحفظ کرنے کا بھی ذمہ دار ہوگا۔

یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جو بتاتی ہے کہ آٹومیشن ایج اپنے دامن میں کیا کچھ امکانات لیے آرہی ہے۔ ہم نے جو مثال بیان کی ہے ان میں سے بیشتر چیزیں ایجاد ہوچکی ہیں۔ اب صرف ان کے عمومی استعمال کی بات ہے کہ اس میں کتنا عرصہ لگتا ہے۔ جزوی تبدیلیوں کے ساتھ دنیا اسی مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہے۔

حالات کے اثر سے افکار کی تبدیلی
میں اپنی بات کو سمجھانے کے لیے ایک مثال قارئین کے سامنے رکھتا ہوں جس سے انھیں اندازہ ہوگا کہ حالات کی ایک مار کس طرح انسانوں کو بدلتی ہے۔ ہم نے اپنے بچپن بلکہ نوجوانی تک تصویر کے موضوع پر زبردست علمی اور فکری مباحث سنے تھے۔ مذہبی فکر کا سارا زور اس بات کو منوانے پر تھا کہ تصویر حرام ہے۔ مگر اس کے بعد انفارمیشن ایج کا آغاز ہوا جس کی بنیاد ہی تصویر پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ اب یہ ساری بحث بالکل غیرمتعلق ہوچکی ہے۔ ہر عالم اطمینان کے ساتھ تصویر کھنچواتا ہے اور مجبوری میں نہیں بلکہ اکثر شوق سے ٹی وی پر اہل علم آتے ہیں اور فیس بک پر تصویریں لگاتے ہیں۔ رہے تصویر کی حرمت کے مباحث تو اب وہ صرف تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔ جو نئی نسل پروان چڑھے گی اس کے خواب و خیال میں بھی یہ بات کبھی نہیں آئے گی کہ کبھی تصویر بھی ہمارے ہاں حرام ہوا کرتی تھی۔

اس جیسی ان گنت تبدیلیاں زمانہ اور حالات کے زیر اثر آنا شروع ہوں گی۔ مجھے اس میں تو کوئی معمولی سا بھی شک نہیں ہے کہ مذہب اسلام کی تعلیم جو اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لائی ہوئی ہدایت یعنی قرآن کریم میں پیش کی ہے وہ ہر زمانے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ ہر زمانے سے واقف رب کریم کی ہدایت ہے۔ لیکن اس کے برعکس مروجہ مذہبی فکر جس چیز کو دین کے نام پر پیش کرتی ہے، یہ بات یقینی ہے کہ ان میں سے ہر چیز کو اپنی جگہ چھوڑنی ہوگی۔ کیونکہ اس کی بنیاد انسانی فہم ہے اور زمانے کے سیلاب کے سامنے کوئی انسانی فہم نہیں ٹھہر سکتا۔

دومثالیں
تاہم یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ جب کچھ تصورات کو عین مذہب بنا کر پیش کیا جارہا ہو اور وہ حالات کے تقاضوں کے سامنے اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں تو بات صرف ان اصولوں تک نہیں رہتی۔ بلکہ خود دین اور اس کی تعلیم کے حوالے سے ایک نوعیت کا عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے اوپر خواتین کی جو مثال دی ہے، وہ یہی سمجھانے کے لیے دی ہے کہ آج خواتین کے حوالے سے بہت سی وہ باتیں جو عین دین سمجھ کر پیش کی جاتی ہیں، جلد یا بدیر ان میں سے بیشتر کو حالات کے دباؤ کے تحت اپنی جگہ چھوڑنا ہوگی۔ مگر یہ چیزیں اپنی جگہ چھوڑتے چھوڑتے خود دین پر عدم اعتماد کا سبب بن سکتی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا دین عالم کے پروردگار کا عطا کردہ ہے۔ یہ دین اگر ایک قدیم قبائلی سماج میں قابل عمل تھا تو جدید ترین سماج میں بھی قابل عمل ہے۔ یہ زرعی دور میں دین کامل تھا تو انفارمیشن اور آٹومیشن ایج میں بھی دین کامل ہی رہے گا۔

چنانچہ ایسے میں دین کی وہی تعبیر زمانے کے سیلاب کا مقابلہ کرسکے گی جس کی بنیاد قرآن مجید پر رکھی جائے گی۔ قرآن مجید ہمارے دین کا بنیادی ماخذ ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی مستند ترین کتاب ہے جو ہر طرح کی تحریفات سے پاک خدا کے اپنے کلام کے طور پر ہمارے پاس محفوظ ہے۔ یہ کتاب کس طرح ہمارے زمانے کے لیے بھی موزوں ہے، اس کو اوپر ہی کی دو مثالوں سے سمجھیں۔ یعنی تصویر اور خواتین کے معاملے کی مثال سے۔

تصویر کے متعلق قرآن مجید کی تعلیمات کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید براہ راست اس کو موضوع بحث نہیں بناتا ہے۔ البتہ بالواسطہ طریقے پر دو پہلوؤں سے اس معاملے پر روشنی ڈالتا ہے۔ قرآن میں کچھ مجسمے یا تماثیل زیر بحث آئے ہیں جو مشرکانہ نوعیت کے تھے۔ قرآن ان کی سخت مذمت کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس سورہ سبا میں حضرت سلیمان پر اللہ تعالیٰ کے احسانات بیان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ جنوں سے دیگر چیزوں کے علاوہ تماثیل یا مجسمے بھی بنواتے تھے۔

چنانچہ اس سے یہ اصول معلوم ہوتا ہے کہ وہ تصویر یا مجسمے جو شرک یا ایمان و اخلاق کی کسی اور خرابی کا باعث بنیں حرام ہیں۔ لیکن جن میں ایسی کوئی قباحت نہ پائی جائے، ان پر دین کو کوئی اعتراض نہیں۔ یہ بات دین کی مجموعی تعلیم کے عین مطابق ہے جس میں اصل اہمیت ایمان و اخلاق کے مطالبات کو حاصل ہے۔ قرآن کی روشنی میں جب ان روایات و آثار کا مطالعہ کیا جائے گا جن میں تصاویر کی حرمت بیان کی گئی ہے تو ان کی درست ترین توجیہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ حضور نے جن تصاویر کی شناعت بیان کی وہ مشرکانہ نوعیت کی تصاویر تھیں۔ اس کے برعکس جاندار یا بے جان کی تصویر کے فرق کی بنیاد پر توجیہ کی جائے گی یا جیسے اس دور میں پینٹنگ کی طرح مستقل اور عکسی اور عارضی تصاویر میں امتیاز کرکے عکسی تصاویر کے جواز کی کوشش کی گئی ہے تو اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اول تو مستقل تصاویر بنانا بھی اب روزمرہ کا کام ہوچکا ہے جس سے بچا نہیں جاسکتا۔ دوسرے یہ کہ بہت سی عکسی تصویریں جیسے انٹر نیٹ پورنوگرافی عکسی ہونے کے باوجود ناجائز رہتی ہیں۔ کیونکہ اصل وجہ حرمت عقیدے یا اخلاق کی خرابی ہے۔ چاہے وہ فائن آرٹ کے مجسمے میں ہو، عام تصویر میں ہو یا انٹرنیٹ اور ٹی وی کی تصویریں ہوں۔ قرآن مجید کے اصول کو اختیار کرنے کی صورت میں عملی زندگی میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اس سے ہٹ کر سوالات کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکتا۔

اسی طرح خواتین کے معاملے میں ہمارے ہاں مروجہ فقہی آراء کے تحت یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کی گواہی حدود کے جرائم جیسے قتل، زنا وغیرہ میں سرے سے قابل قبول نہیں۔ یہ آدھی پوری کا معاملہ نہیں ہے۔ حدود میں سرے سے عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں۔ اس بات کی کوئی اساس بھی قرآن مجید میں نہیں۔ حتیٰ کہ احادیث میں بھی نہیں ہے۔ قرآن نے سوائے زنا کے کسی اور معاملے میں گواہی کا کوئی ضابطہ بیان نہیں کیا بلکہ اسے زمانے اور تمدن پر چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ فرد کی شہادت سے لے کر ڈین این اے، کیمرے، فنگر پرنٹس جس چیز پر قاضی مطمئن ہوجائے، اس پر فیصلہ ہوجائے گا۔ قرآن کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ عقلی طور پر بھی معلوم ہے کہ ہر دور میں جرم کے ثبوت کے طریقے الگ ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کی تعلیم ہمیشہ قابل عمل ہے۔ لیکن قرآن سے ہٹ کر جب بھی معاملہ ہوگا وہ نئے حالات میں قابل عمل نہیں رہے گا۔

دین کے بارے میں یہ سارے مسائل اس نئی نسل کے سامنے جب آئیں گے جو دین کے نام پر دھرنوں اوردہشت گردی کو دیکھتے ہوئے جوان ہوئی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دین کے خلاف کیسی بغاوت جنم لے سکتی ہے اور جنم لے رہی ہے۔

کرنے کا کام
ایسے میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ علمی محاذ پر قرآن مجید کی بنیاد پر دین پہ غور و فکر کا سلسلہ جاری رکھا جائے، کیونکہ ایک روایت کے مطابق جو بعض محققین کے نزدیک سیدنا علی کا ایک قول ہے، قرآن مجید کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے اور علماء اس سے کبھی سیر نہیں ہوں گے۔ چنانچہ یہی کتاب ہر دور کے چیلنجوں کا بہترین جواب ہے۔

کرنے کا دوسرا کام اسلام کی اصل دعوت یعنی ایمان و اخلاق کو اعلیٰ ترین اسلوب میں دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ آج کا انسان قرآن کی اس تعلیم کو سمجھنے کے لیے زیادہ بہتر انداز میں تیار ہے۔ ہمارے نزدیک تو موجودہ دور کو لانے میں بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی حکمت ہے۔

اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہیں، موجودہ دور اور آنے والا دور ان کی مرضی کے بغیر نہیں آرہا۔ یہ ان کی اس اسکیم کا حصہ ہے جس کے تحت دنیا اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس دور کو پیدا کیے جانے کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔ ایک یہ کہ انفارمیشن ایج کے اس دور میں ان کا پیغام پوری دنیا کے ہر ہر انسان تک پہنچ جائے۔ دوسرا یہ کہ جس جنت کا وعدہ انھوں نے اپنے نیک بندوں سے کیا ہے، اس آنے والے آٹومیشن دور میں اس کا ایک ادنیٰ سا عملی نقشہ لوگوں کو دکھا دیا جائے۔ دوسری طرف انسانیت الحاد کی فکر کے علاوہ ان اقدار کو اصل اقدار مان چکی ہے جن کو خود قرآن اپنی بنیاد کے طورپر پیش کرتا ہے۔ یعنی عدل، احسان کا فروغ اور ظلم و حق تلفی کا خاتمہ۔ صرف ذات باری تعالیٰ اور فواحش کے معاملے میں ہمارا اور انسانیت کا اختلاف ہے۔ پہلی چیز اگر دنیا مان لیتی ہے تو دوسری منوانا بھی آسان ہوجائے گا۔ مزید یہ کہ آج کا انسان قرآن مجید کے ان دلائل کو سننے اور ماننے کے لیے تیار ہے جو سرتاسر عقلی ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دلائل کو پوری طرح دنیا کے سامنے پیش کر دیا جائے۔

چنانچہ اب اس دور کے آغازسے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کر دیا کہ دین کی اصل دعوت، اس کا اصل قانون، اس کا استدلال اور اس کی حجت علمی سطح پر پوری طرح واضح کر دی گئی ہے۔ اس اصل دین، اصل دعوت، اصل قانون اور اصل استدلال میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی حقانیت ثابت نہ کی جاسکے یا جو قابل عمل نہ ہو۔ ایمان و اخلاق کی دعوت، اس کی حجت اور شریعت کا اصل قانون اپنی بے آمیز شکل میں ہر دور اور ہر زمانے میں قابل عمل ہے۔

اس دعوت کو دنیا نے قبول کرلیا تو پھر دنیا میں امن، سلامتی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔ آٹومیشن ایج دنیا میں خدا کی رحمت بن کر آئے گی۔ ورنہ دوسری صورت میں ظلم و فساد کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ طاقتور کمزوروں کو کچلتے رہیں گے۔

چنانچہ ہمارے نزدیک اس دور کو لانے کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ دین کی یہ بے آمیز دعوت پوری دنیا تک پہنچا دی جائے اور دنیا میں امن و خوشحالی آجائے۔ لیکن اگراس کے بعد بھی لوگ نہیں مانتے تو پھر اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کے متعلق ایک حتمی فیصلہ کرلیں گے۔ قیامت کا وعدہ پورا کر دیا جائے گا اور انسانیت اپنے کیے کی پاداش میں اپنی تمام تر ترقی سمیت فنا کر دی جائے گی۔