پالتو مرغی کا شکار ۔ ابویحییٰ
کسی ستم ظریف نے میاں بیوی کے رشتے میں مرد کی محبت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک شوہر کا اپنی بیوی سے اظہار محبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے پالتو مرغی کا شکار کھیلنا۔ یہ بات مزاحیہ انداز میں مردوں کی ایک بڑی کمزوری کا بیان ہے۔ وہ کمزوری یہ ہے کہ میاں بیوی کے رشتے میں بندھنے کے بعد بحیثیت عورت بیوی کی کشش کم ہوجاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت دفعہ اس کی ذمہ داری خواتین کے سر بھی ہوتی ہے جو بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی شوہر اور خود اپنی ذات سے بھی بے پروا ہوجاتی ہیں۔ گھر میں ماں آجاتی ہے اور بیوی رخصت ہوجاتی ہے۔ تاہم ایسا نہ ہو تب بھی مرد فطری طور پر بیوی میں بحیثیت عورت اس طرح دلچسپی نہیں لیتے۔ یہ چیز اکثر میاں بیوی کے رشتے میں ناچاقی اور بعض اوقات گھر کی خرابی کا سبب بن جاتی ہے۔
ایسے میں یہ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حقیقت کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا تکمیل لذت کے نہیں بلکہ تعارف لذت کے اصول پر بنائی ہے۔ اس دنیا کی ہر نعمت جیسے ہی دسترس میں آتی ہے، اپنی کشش کھو دیتی ہے۔ یہ بظاہر اس دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے لیکن اس واقعے کا اصل مقصد انسان کو یہ بتانا ہے کہ یہ دنیا سب کچھ پا لینے کی نہیں بلکہ اس جنت کے تعارف کی جگہ ہے جس کا ہر عیش دائمی اور ہر لذت ابدی ہوگی۔
یہ حقیقت جاننے کے بعد انسان کی اصل توجہ اس امتحان کی طرف رہے گی جس میں کامیابی کا نتیجہ لافانی جنت ہوگی۔ ایسا انسان اپنی بیوی کی ڈھلتی جوانی کو واپس لانے یا کسی نئی عورت میں دلچسپی لینے کے بجائے اپنے بیوی سے جیسی کہ وہ ہے، محبت کرے گا۔ کیونکہ یہ محبت ہی گھر میں ایک پاکیزہ ماحول پیدا کرے گی۔ یہی پاکیزگی اس کو اور اس کے خاندان کو دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب و کامران کرے گی۔