نظام اور شعور ۔ ابویحییٰ
امریکہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں لائن بنانا روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ وہاں لوگ بس کا انتظار کر رہے ہوں، کھانے پینے کی اشیاء خرید رہے ہوں یا عام ضرورت کی کسی اور شے کو استعمال کر رہے ہوں، جہاں چند آدمی اکٹھے ہوتے ہیں لائن بنا لیتے ہیں۔
ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کے شہری جب مغربی ممالک میں جاتے ہیں تو ان لوگوں کی قطار پسندی سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ وہ ان کے نظام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ پاتے۔ تاہم مسلمانوں کے پاس اس ڈسپلن کا ایک زیادہ متاثر کن نمونہ دنیا کو دکھانے کے لیے موجود ہے۔ دن میں پانچ دفعہ مسلمان تکبیر شروع ہونے کے بعد چند لمحوں میں، ایک بے ترتیب گروہ سے صف در صف منظم اجتماع میں بدل جاتے ہیں۔ ایک امام کی پکار پر وہ انتہائی منظم طریقے سے نماز ادا کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک قابل دید نظارہ ہوتا ہے۔ یہ کسی عام نماز کا ذکر نہیں جس میں چند مسلمان شریک ہوں، جمعہ میں سیکڑوں، عید پر ہزاروں اور حرم میں لاکھوں کے اجتماع میں بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف منظر نہیں ہوتا۔مگر عجیب بات ہے کہ یہی مسلمان جب مسجد سے نکلتے ہیں تو قدم قدم پر اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ گویا لائن بنا کر کھڑا ہونا ایک جرم ہے۔ کسی تقریب میں کھانا شروع ہوتے وقت ہلڑ بازی اور رش کے اوقات میں بسوں میں چڑھتے وقت کی دھکم پیل ہماری ثقافتی اقدار بن چکی ہیں۔ جن جگہوں پر مجبوراً لائن بنانا پڑتی ہے وہاں بھی لوگ لائن سے باہر ہی کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں تاکہ دامن تہمت ِقطار سے آلودہ نہ ہو۔
سوال یہ ہے کہ مسلمان جن کے پاس نماز جیسا اعلیٰ تربیتی نظام موجود ہے، ایسا طرزِ عمل کیوں اختیار کرتے ہیں، جبکہ اہلِ مغرب جو اقامت صلوٰۃ کے تصور سے بھی واقف نہیں ہیں، اس درجے ڈسپلن کیسے قائم کر لیتے ہیں؟ جن لوگوں نے مغرب کا سفر کیا ہے اور وہ پاکستانی جو مغرب میں مقیم ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ ان کے نظام کی خوبی ہے، مگر میں اس تجزیئے سے اتفاق نہیں کرسکا۔ میں نے مغرب میں اپنے قیام کے دوران میں ایسا کوئی نظام نہیں دیکھا جو لوگوں کو لائن بنانے پر مجبور کرتا ہو۔ یہ دراصل ان کے شعور کی پختگی ہے جو انہیں بتاتی ہے کہ لائن بنانے میں سب کا فائدہ ہے۔ لائن نہیں بنے گی تو سب کو تکلیف ہوگی۔ خاص طور پر ضعیف، بزرگ، معذور، عورتیں اور بچے محروم رہ جائیں گے۔ چنانچہ وہ اپنے اس شعور کی وجہ سے لائن بناتے ہیں نہ کہ کسی نظام کی وجہ سے۔ دوسری طرف مسلمان نماز جیسی اعلیٰ تربیتی عبادت بھی بے شعوری کے عالم میں ادا کرتے ہیں۔ اس لیے وہ اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھ پاتے۔ دورانِ نماز میں آخری درجے کا ڈسپلن قائم کرنے والے نماز سے باہر ابتدائی درجے کا بھی ڈسپلن قائم نہیں کر پاتے۔
اصل میں یہ عمدہ نظام نہیں ہوتا جو اعلیٰ شعور دیتا ہے، یہ اعلیٰ شعور ہوتا ہے جو عمدہ نظام دیتا ہے۔ اور وقت اور حالات کے اعتبار سے یہ نظام اپنی شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ مغرب کی کامیاب زندگی میں اس بات کا بڑا عمدہ سبق ہے۔ اس بات کو ایک اور مثال سے سمجھیں۔ امریکہ کینیڈا کے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ، بس اور زمین دوز ریلوے پر مشتمل ہوتا ہے، جسے ’’سب وے‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لوگ بس میں ہمیشہ لائن بنا کر چڑھتے ہیں البتہ سب وے میں کبھی لائن نہیں بنائی جاتی۔ کیونکہ وہاں ٹرین چند لمحے کے لیے رکتی ہے۔ اگر لائن بنائی جائے گی تو اکثر لوگ ٹرین میں سوار ہونے سے رہ جائیں گے۔ لہٰذا وہاں کا اصول یہ ہے کہ سب وے پر لوگ بکھر کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ٹرین آنے پر پہلے اترنے والوں کو اترنے دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد لوگ تیزی سے اپنے سامنے کھڑی بوگی کے خالی دروازے سے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔
اپنے نتائج و اثرات کے اعتبار سے یہ انتہائی غیرمعمولی بات ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی بڑی اہمیت ہے کہ نظام سے لوگ باشعور نہیں ہوتے، شعور سے نظام تشکیل پاتا ہے، اسی سے پروان چڑھتا اور اسی سے برقرار رہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اجتماعی زندگی میں انسان کے اندر شعور جب باہر اپنا اظہار کرتا ہے تو نظام کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مغرب کا نظام صدیوں کے تجربات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شعور سے تشکیل پایا ہے۔ اب بھی اس نظام کو کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے تو اس کا اجتماعی شعور حرکت میں آجاتا ہے اور اس صورتِ حال کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرلیتا ہے۔
مسلمانوں کی اپنی تاریخ بھی اس سے کچھ مختلف سبق نہیں دیتی۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ اس شعور کی بنیادیں الہامی تھیں، جنہیں کسی قسم کے تجربے سے گذرنے کی ضرورت نہیں پڑی حضورا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید و آخرت کے اسلامی شعور کی بنیاد پر لوگوں کو اٹھایا اور جب ان لوگوں نے ایک معاشرہ تشکیل دیا تو اس کے اندر اپنے تمدن و حالات کے اعتبار سے ایک بہترین نظام کو جنم دیا۔
آج اگر کرنے کا کوئی کام ہے تو یہی ہے کہ توحید و آخرت کی بنیاد پر مسلمانوں کے اجتماعی شعور کی تربیت کی جائے۔ اس کے جو نتائج نکلیں گے ان میں سے ایک یہ بھی ہوگا کہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ایک نظام دنیا کے سامنے آجائے گا۔ جس کے فیوض و برکات سے ایک عالم فیض یاب ہوگا۔