ایسا نہ ہو کہ ۔۔۔ ۔ ابویحییٰ
یہ پرانے زمانے کا کوئی وحشیانہ سماج نہیں پاکستان میں مسلمانوں کا سماج ہے جہاں ایک پولیو زدہ پیروں سے معذور عورت کو اغوا کیا جاتا ہے۔ دس دن تک اس کو قید میں رکھ کر اجتماعی آبرو ریزی کی جاتی ہے اور پھر سڑک پر پھینک دیا جاتا ہے۔
یہ کوئی غیر مسلم ملک نہیں مملکت خداداد پاکستان ہے جہاں نسائیت کی منزل سے بہت دور ایک معصوم بچی کو اغوا کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے اور پھر قتل کر کے گندے نالے میں پھینک دیا جاتا ہے۔
ایک حساس دل شخص یہ سب کچھ پڑھ کر اور سن کر تڑپ اٹھتا ہے۔ وہ ایسے مجرموں کی سرعام پھانسی کا مطالبہ کر کے دل کو مطمئن کرتا ہے۔ مگر لوگ یہ نہیں سوچتے کہ معاشرے کے دامن پر لگے یہ داغ اس گندگی سے پیدا ہو رہے ہیں جو میڈیا فحاشی اور عریانی کی شکل میں معاشرے میں پھیلا رہا ہے۔ آج کے ڈرامے اور فلمیں اپنے اندر سوائے شہوانیت اور تشدد کے انسان کو اور کوئی ذوق نہیں دیتے۔ یہ ذوق کچھ لوگوں کے ذہنوں تک محدود رہتا ہے۔ کچھ کی نگاہوں تک اور کچھ بدنصیب لوگوں میں یہ ایک ایسی وحشت میں تبدیل ہوتا ہے جہاں انسان، انسان نہیں رہتا، درندہ بن جاتا ہے۔
یہ درندگی بڑھتی رہے گی جب تک ہم اپنے اپنے بیڈ روم میں بیٹھ کر ٹی وی کے چینل بدلتے رہیں گے۔ تفریح کے نام پر گندگی سے خود کو آلودہ کرتے رہیں گے۔ ہم اخباروں میں ایسی خبریں پڑھ کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور ذہن کے تاریک گوشوں اور نظر کی بے حجاب گلیوں میں لذتِنفس کی دکان سجاتے رہیں گے۔
ہم معاشرے میں پھیلے ہوئے گند کو صاف نہیں کرسکتے۔ مگر اپنے آپ کو اس گند سے ضرور بچا سکتے ہیں۔ ہم معاشرے سے ایسے درندوں کا خاتمہ نہیں کرسکتے، مگر اپنے اندر موجود وحشی کو لگام ضرور دے سکتے ہیں۔
آئیے! اپنے جذبات کا رخ دائرہ احتجاج سے نکال کر دائرہ عمل کی طرف موڑتے ہیں۔ جو ممکن نہیں اسے چھوڑ کر، اُس کی کوشش کرتے ہیں جو عین ممکن ہے۔ اس لیے کہ عنقریب ہمارا واسطہ ایک ایسی ہستی سے پڑنے والا ہے جو نگاہوں کی خیانتوں کو بھی جانتی ہے اور سینوں میں چھپے خیالات کو بھی۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ہمارے اندر کے وحشی کو وہی سزا دے ڈالے، جو ہم دوسروں کو دینا چاہتے ہیں۔