گندے انڈے ۔ ابویحییٰ
عام طور پر لوگوں کی یہ کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ سودا سلف لینے باہر جائیں توکوئی دکاندار گلی سڑی اور باسی اشیا ان کے حوالے نہ کر دے۔ تاہم دکانوں پر ملنے والی اشیا میں غالباً انڈا واحد چیز ہے جس کی ظاہری حالت دیکھ کر اس کے خراب ہونے کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ انڈے کا خراب ہونا اسی وقت معلوم ہوتا ہے جب گھر لانے کے بعد انڈے پر چڑھا خول توڑا جائے۔ تب ہی پتا چلتا ہے کہ کھانے کے استعمال میں آنے والی سفیدی اور زردی صحیح حالت میں ہے یا خراب ہوچکی ہے۔
آج کے انسان کا معاملہ بھی کچھ انڈے ہی جیسا ہے۔ آج جس شخص سے بات کی جائے وہ اپنی گفتگو اور ظاہری چیزوں سے اپنے گرد انڈے کی طرح سفید خول چڑھائے ہوئے ملتا ہے۔ خوش اخلاق، با کردار، اصول پرست، معاشرتی خرابیوں سے نالاں اور اخلاقی انحطاط سے پریشان۔ مگر جب معاملہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر لوگ گندے انڈے کی طرح ہیں۔ لوگ صرف اس وقت تک اچھے انڈے ثابت ہوتے ہیں جب تک ان کے مفادات اور خواہشات کے تحت معاملات چل رہے ہوں۔ مگر جیسے ہی ان کی انا کے خول پر ضرب لگے، ان کے مفادات کا گھروندا بکھرنے لگے، ان کی خواہشات کا محل مسمار ہونے لگے، ان کے تعصبات کا علم سرنگوں ہونے لگے، گندے انڈے کا سفید خول ٹوٹتا ہے اور اس کے اندر سے غلاظت اور بدبو کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
لوگ وعدہ کرتے ہیں مگر پورا نہیں کرتے۔ لوگ بولتے ہیں مگر سچائی سے کام نہیں لیتے۔ لوگ تنقید کرتے ہیں مگر عدل و انصاف کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ لوگ یہ سب کچھ کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ علم و اخلاص کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ اپنے نیک و صالح ہونے کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں۔ اپنی پاکدامنی کا قصیدہ بھی پڑھتے رہتے ہیں۔ مگر در حقیقت یہ لوگ گندے انڈے ہیں۔ یہ گندے انڈے معاشرے کی اعلیٰ روایات کو ختم کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کبھی ان کے الفاظ کے ترازو میں نہیں تولنا چاہیے بلکہ عمل کے آئینے میں ان کی تصویر دیکھنی چاہیے۔