نیت ۔ شمائلہ عثمان
امی میں بہت تھک گئی ہوں۔ پتہ نہیں آپ نے کیسے اتنے رشتے نبھا لیے۔ اتنے بچوں کو پال لیا۔ میں تو تین دن میں تھک گئی۔ آپ تو گھر کی بڑی تھیں، کیسے نندوں اور دیوروں کی شادیوں میں دادی جان کے ساتھ رہیں۔ نانا جان تو بہت امیر آدمی تھے لیکن ابو کی آمدنی تو بہت قلیل تھی۔ ہمارا ددھیال تو بہت بڑا تھا اور جوائنٹ سسٹم پھر آپ کے بھی آٹھ بچے۔ سب کو پڑھایا لکھایا قابل بنایا، دینی اور دنیاوی تربیت کی، پھر سب کی شادیاں کیں۔ اب مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے کتنی تکلیفیں اٹھائیں اور کبھی اظہار تک نہیں کیا۔
آج امی کا فون آیا تو صبا پھٹ پڑی اس کا دل رونے کو چاہ رہا تھا پہلے رمضان سے اس کی چھوٹی نند اپنے بچوں کے ساتھ حیدر آباد سے اسلام آباد اپنی والدہ اور بھائی کے پاس آئی ہوئی تھی۔ اگرچہ تین سال بعد آئی تھی لیکن عید کر کے جانے کا ارادہ تھا آج تیرہواں روزہ تھا صبا کا ایک ایک دن بھاری ہو رہا تھا۔ سارا روٹین بچوں کی چھٹیوں اور رمضان کی وجہ سے آؤٹ ہوچکا تھا۔ اوپر سے نند کے آنے سے بچے بہت خوش تھے۔ اپنے کزنز کے ساتھ مل کر خوب چھٹیوں کو انجوائے کر رہے تھے۔
وہ دو بجے سے سحری بنانے کے لیے کچن میں لگ جاتی تھی۔ اگرچہ نند اس کے ساتھ مستقل لگی رہتی لیکن ذمے داری تو صبا کی ہی تھی۔ فجر کے بعد چند گھنٹے کی نیند ہوتی پھر ضعیف ساس کے لیے اٹھ کر ان کو ناشتہ دینا، دوپہر کے لیے ان کا پرہیزی کھانا بنانا، پھر جن چھوٹے بچوں کا روزہ نہ ہوتا ان کے کھانے کا انتظام کرنا۔ صبا کی نند صالحہ بہت سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ اس نے صبا کی کئی ذمے داریاں اپنے ذمے لے لی تھیں۔ اپنی والدہ کو سنبھالنا، ان کا پرہیزی کھانا بنانا اور ان کو کھلانا، یہ سب اس نے یہ کہہ کر اپنے ذمے لے لیا تھا کہ یہ نیکی تو دن رات آپ ہی کما رہی ہیں۔ میں تو دور ہوں، اس لیے جب تک میں ہوں مجھے ماں کی خدمت کا موقع دیں۔
صبا ہمیشہ پرتکلف کھانوں اور افطاری کا اہتمام کرتی تھی۔ ہر بچے کی الگ پسند کی افطاری اور کھانا ہوتا تھا جس سے ٹیبل بھر جاتی تھی۔ یہ اس کی نظر میں برکت تھی لیکن یہ سسٹم صالحہ نے آکر چینج کروا دیا۔ افطاری روزانہ پرتکلف نہ ہونا اور کھانے میں ایک ڈش اور وہی سحری میں۔ شروع میں صبا کو عجیب سا لگا۔ لیکن ایک دو دفعہ ایسا کرنے سے سہولت محسوس ہوئی اور سب سے بڑھ کر اس کے نخریلے بچے صالحہ کے بچوں کے ساتھ مل کر جو ایک چیز بنتی، وہی بغیر کسی شکایت کے کھا لیتے۔ صبا کو احساس ہو رہا تھا کہ جس چیز کو وہ برکت خیال کر رہی تھی وہ تو اصل میں اسراف تھا۔
اب صبا کو یہ سسٹم اچھا تو لگ رہا تھا، لیکن اس کی الجھن اور ذہنی تھکاوٹ کا باعث اس کی ضعیف ساس تھیں جو ہمیشہ سے مشرقی روایتی ساس رہیں تھیں۔ بیماری اور بڑھاپے نے ان کے مزاج میں مزید تلخی پیدا کر دی تھی۔ ان کو اپنی بیٹی کا کام کرنا، سادہ کھانا کھانا؛ اپنی بہو کی لاپرواہی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ روٹین میں صبا کے پرتکلف کھانوں کو دیکھتی رہیں تھیں اور صبا کے میکے والوں کے آنے پر ہونے والے اہتمام بھی ان کے ذہن میں تھے۔ جس کی وجہ سے ماحول میں کھنچاؤ سا پیدا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے صبا بیزار تھی اور آج سارا دکھ ماں سے کہہ ڈالا۔
نفیسہ بیگم بردبار اور سنجیدہ خاتون تھیں۔ انہوں نے صبا کی ایک ایک بات غور سے سنی۔ جب اس کا دل ہلکا ہوگیا تو اپنے روایتی اور پرشفقت انداز میں بیٹی سے مخاطب ہوئیں۔ صبا! تم سے کس نے کہا کہ میں نے تکلیفوں میں زندگی گزاری۔ اگر نانا جان امیر آدمی تھے تو یہ میری ماں کا نصیب تھا۔ میرا نصیب تو میرے شوہر کے ساتھ جڑا تھا۔ تمہارے بابا کی آمدنی شروع میں قلیل تھی، لیکن وقت کے ساتھ ان کی محنت میں اللہ تعالیٰ نے برکتیں عطا کی تھیں، تمہاری دادی نے اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، تمہارے بابا نے جو عزت اور اعتماد مجھے دیا وہی میری زندگی کا سرمایہ تھا، میں نے جو کام بھی کیا اپنے شوہر کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جس پر ہمیشہ ان کا اعتماد حاصل رہا۔ سسرال میں عزت ملی اور میں نے بھی ہر کام نیکی سمجھ کر کیا۔ وقت کے ساتھ پختگی آتی گئی اور کمزوریاں دور ہوتی گئیں جو تم سب بہن بھائیوں کی تربیت میں کام آئی۔
بیٹی میرا تو تجربہ ہے کہ اگر ہر ذمے داری اور ہر رشتے کو نیکی سمجھ کر نبھاؤ تو اللہ تعالیٰ بڑا خوش ہوتا ہے۔ برکت بھی ڈالتا ہے اور آسانیاں بھی پیدا کرتا ہے۔ بیٹی تمہارا شوہر تمہیں بہت عزت دیتا ہے۔ تمہاری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے سرگرم رہتا ہے۔ مالی طور پر مستحکم ہے۔ تم پر اعتبار کرتا ہے۔ بیٹی یہ عزت اور اعتبار کا رشتہ محبت سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اگر تم رمضان میں نفلی عبادتوں کے لیے ٹائم نہیں نکال پا رہی تو تم صرف اپنی نیت کو بدلو۔ ہر کام نیکی سمجھ کر کرو۔ گھر کے کام کاج بچوں کی پرورش، مہمان داری، افطاری کرانا، سحری کا انتظام بزرگوں کا خیال ہر کام اللہ کی رضا کے لیے کرو۔ نفلی عبادات سے زیادہ انشاء اللہ اجر کی مستحق ہوگی۔ بیٹی تمہاری نند کا آنا تو سراسر رحمت ہے۔ اس نے تمہارے لیے کتنی آسانیاں پیدا کی ہوئی ہیں جو بچوں کی تربیت میں بھی کام آئیں گی۔ رہا ساس کا رویہ تو یہی تلخ و شیریں رشتوں اور رویوں کو نبھا کر ہی جنت کی امیدوار بن سکتی ہو۔
صبا کو اپنی سوچ پر شرمندگی ہو رہی تھی نفیسہ بیگم کی نصیحت نے اس کی اندرونی کیفیت کو بدل دیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی اور ہر لمحہ خدا کی عطا کردہ نعمتوں کا دل ہی دل میں شکر ادا کر رہی تھی۔ صبا وہی تھی، کام وہی تھے، صرف نیت کے بدل جانے سے رویے بھی بدل گئے اور نتائج بھی۔