نیا آدمی نئی قوم ۔ ابویحییٰ
’’آج دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ظلم ہو رہا ہے۔ یہود و ہنود، امریکہ روس، مغربی میڈیا سب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مشغول ہیں۔ آپ دیکھیے کہ کشمیر سے بوسنیا اور فلسطین سے چیچنیا تک ہر جگہ مسلمان جبر کی زد میں ہیں۔ ساری دنیا کی طاقتیں مسلمانوں کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ ہر جگہ وہ ظلم کا شکار ہیں۔ اس کا تازہ ترین نمونہ افغانستان اور پھر عراق پر امریکہ کے مظالم ہیں۔‘‘
یہ صاحب بے تکان بول رہے تھے اور میں خاموشی سے بیٹھا سن رہا تھا۔ جب وہ بول چکے تو میں نے ان کی بارگاہ میں عرض کیا: کبھی آپ نے غور کیا کہ جتنے مظالم غیرمسلم کر رہے ہیں، مسلمان خود مسلمانوں کے ساتھ اس سے زیادہ ظلم کر رہے ہیں۔ ایران و عراق کی آٹھ سالہ جنگ آپ کے پڑوس میں لڑی گئی۔ قیام بنگلہ دیش کے وقت جان، مال اور آبرو کی بربادی کی داستانیں تاریخ کے خونی ورق پر آج بھی رقم ہیں۔ پھر یہ بتائیے کہ آپ کے جاگیر دارانہ نظام میں جان مال اور آبرو کے خلاف ہونے والا کون سا ظلم ہے جو نہیں ہوتا۔ چوری، رہزنی، ڈاکہ، زنا بالجبر اور قتل کی وارداتیں آپ کے شہروں کے معمولات میں شامل ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ہاں انسانوں کو زندگی گزارنے کی بنیادی انسانی ضروریات بھی میسر نہیں۔ صاف پانی، تعلیم، روزگار، علاج و معالجہ اور انصاف جیسی چیزیں جو معاشرے کے لیے ناگزیر ہیں، آپ کے ہاں ایک غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ آپ غریب ہیں تو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلا سکتے۔ سفارش نہیں ہے تو ملازمت نہیں مل سکتی۔ کوئی بڑی بیماری ہوجائے تو مرنے والا تو مرتا ہے مگر پورے خاندان کا دیوالیہ کرا دیتا ہے۔ کوئی پوچھنے نہیں آتا۔ آپ پر اگر کوئی ظلم ہوجائے تو پولیس کا تصور ہی دہشت زدہ کر دیتا ہے۔ برسوں کچہری عدالت کے چکر لگا کر بھی انصاف نہیں مل پاتا۔ پھر ان سب کے ساتھ رشوت، ملاوٹ، کرپشن اور ان جیسے کتنے ہی مسائل ہیں جنہوں نے ایک عام آدمی کی زندگی کو مسائل کا جہنم بنا رکھا ہے۔
اگر آپ ایک کیلکولیٹر اٹھائیں اور مسلمانوں کے مسائل کو شمار کرنا شروع کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جو مسائل و مصائب ہم غیرمسلموں کے ہاتھوں جھیل رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ مسائل وہ ہیں جو آج مسلمانوں نے خود اپنے لوگوں کے لیے پیدا کر رکھے ہیں۔
انہوں نے میری بات پوری نہیں ہونے دی اور کہنے لگے۔ یہ سارے مسائل جو تم نے گنوائے ہیں دراصل امریکی اور مغربی سازشوں کا نتیجہ ہیں۔امریکہ اور اس کے حواریوں کا صرف ایک علاج ہے۔ ان کے خلاف جہاد ہونا چاہیے۔ جب امریکہ کا ناپاک وجود مٹ جائے گا تو ہمارے سارے مسائل بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔
میں نے ان سے کہا کہ پہلے دنیا بھر کے مسلمانوں پر برطانیہ مسلط تھا۔ اس کے خاتمے کے بعد بھی ہمارے مسائل ایسے ہی رہے۔ پھر سوویت یونین مسلط ہوا۔ اس کے خاتمے کے بعد بھی ہمارے مسائل ایسے ہی رہے۔ اب اگر امریکہ بھی ختم ہوجاتا ہے تو ہمارے مسائل پھر بھی ختم نہیں ہوں گے۔
آپ سوچیے کہ آپ جن طاقتوں کی بات کر رہے ہیں اگر وہ ظلم کر بھی رہی ہیں تو تنہا آپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ مجھے بتائیے کہ آپ امریکہ، روس، ہندوستان اور مغرب کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ جبکہ آپ اگر فیصلہ کرلیں کہ آپ اپنے معاشرے کی اصلاح کرلیں تو کم از کم اپنے ارد گرد آپ کئی درجے اعلیٰ سیرت و اخلاق کے لوگ پیدا کرسکتے ہیں جو نہ جانے کتنے بندگان خدا کی مشکلات دور کریں گے۔ کتنے معذوروں، بیواؤں، یتیموں، مسکینوں اور ضعیفوں کا سہارا بنیں گے۔ کتنے بیماروں کا علاج کرا کر ان کی زندگی بچائیں گے۔ کتنی بے آسرا لڑکیوں کی شادیاں کرا کے ان کا خاندان بسائیں گے۔ کتنے نوجوانوں کو تعلیم دلا کر ان کی زندگی سنواریں گے۔ کتنے لوگوں کو جنت کے راستے تک پہنچا دیں گے۔
ہمیں اپنی تعمیر کرنی ہے۔ یہ تعمیر نفرت اور تخریب کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ اٹھیے اور اپنے ارد گرد محبت پھیلانا شروع کیجیے۔ لوگوں کی اخلاقی تربیت کیجیے۔ انہیں اچھا انسان بنائیے۔ زندگی میں کم از کم ایک انسان کی زندگی میں اجالا کر دیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ پھر اس چراغ سے کتنے چراغ جلیں گے۔
وہ کچھ نہ بولے اور سر جھکا دیا۔ ایک نیا آدمی پیدا ہوگیا۔ ایک نئی قوم پیدا ہوگئی۔