اعضاء کی پیوندکاری اور اسلام ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں عالمی شہرت کے حامل معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی صاحب کا انتقال ہوگیا۔ اپنے انتقال سے قبل وہ اپنے اعضاء عطیہ کرنے کی وصیت کر گئے تھے۔ چنانچہ ان کے انتقال کے بعد ان کی آنکھوں کا قرنیہ (Cornea) دو ضرورت مندوں کو لگا دیا گیا اور ان کی بینائی بحال ہوگئی۔ تاہم ان کے اس عمل سے ہمارے ہاں ایک پرانی بحث پھر زندہ ہوگئی۔ یعنی کیا اعضاء کو عطیہ کرنا جائز ہے۔ ہمارے ہاں اس معاملے میں اہل علم کی دو آراء ہیں۔ ایک وہ ہیں جو اسے ناجائز کہتے ہیں اور دوسرے اس کے جواز کے قائل ہیں۔ آج کے اس مضمون میں ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ ہم اس معاملے میں دونوں طرف کے دلائل قارئین کے سامنے رکھ دیں۔ فیصلہ کرنا خود قارئین کا کام ہے کہ کون سا نقطہ نظر درست ہے۔
ایک اخلاقی مسئلہ
تاہم علمی دلائل سے قطع نظر اس معاملے میں دو چیزیں ایسی ہیں جن کا سمجھنا لوگوں کے لیے ضروری ہے۔ ایک یہ کہ اعضا کی پیوندکاری کا معاملہ قرآن و سنت میں زیر بحث نہیں آیا۔ آ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے کہ یہ عمل دور جدید میں میڈیکل سائنس کے شعبے میں زبردست ترقی کے بعد ہی ممکن ہوا ہے۔ اس لیے قرآن و حدیث میں اس حوالے سے براہ راست کوئی نص موجود نہیں ہے۔ چنانچہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔
دوسری حقیقت جس کا سمجھنا زیادہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح کے اجتہادی مسائل حق و باطل کا معاملہ نہیں ہوا کرتے۔ اہل علم سائل کے جواب میں دیانت داری سے تحقیق کر کے اپنی آراء بیان کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد متعلقہ لوگوں کا مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ کس عالم کی رائے سے مطمئن ہیں۔ وہ دلائل کی بنا پر جس رائے کو چاہیں اختیار کر لیں۔ یہ ان کا اور ان کے پروردگار کا معاملہ ہے۔ انھوں نے کسی نقطہ نظر کو غلط سمجھنے کے باوجود صرف اس لیے اختیار کیا کہ وہ ان کی خواہش کے مطابق تھا تو وہ اللہ کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔
لیکن وہ دیانت داری سے مطمئن ہونے کے بعد کسی رائے کو اختیار کرتے ہیں تو ان کو کسی وعید کا مستحق نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ چیز بیان کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں یہ عام رویہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں فتویٰ دینے کے بعد بعض اہل علم اس سے اختلاف کرنے والوں کی نہ صرف نیت پر شک کرتے ہیں بلکہ ان کو مغرب سے مرعوب، اسلام سے منحرف اور انھی جیسے دیگر خطابات سے نوازتے ہیں۔ اسی پیوندکاری کے معاملے میں معلوم ہے کہ مختلف رائے رکھنے والوں کو حیات بعد از ممات کا منکر قرار دیا گیا۔ یہ ایک سنگین اخلاقی مسئلہ ہے۔ قران مجید اس طرح کی وعیدیں صرف انھی لوگوں کو سناتا ہے جو ایمان کے منکر یا کسی اخلاقی جرم کے مسلسل مرتکب ہوں۔ اجتہادی معاملات میں مختلف آراء رکھنے والوں کے بارے میں اس طرح کی رائے رکھنے والے خود اللہ کے ہاں جواب دہی کے مقام پر آجاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ایسے اجتہادی معاملات کو نہ دعوت کا موضوع بننا چاہیے نہ نزاع کا۔ دونوں طرف کے دلائل لوگوں کے سامنے رکھ کر فیصلہ ان پر چھوڑ دینا چاہیے۔ لوگ پوچھیں تو اپنی رائے بھی بیان کر دینا چاہیے۔ لیکن ہر رائے کا احترام کرنا چاہیے اور لوگوں کو حق دینا چاہیے کہ جس رائے کو چاہیں اختیار کر لیں۔
جواز کے قائلین اور مخالفین
اس اصولی بحث کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں اہل علم کی آراء کیا ہیں۔ جو لوگ اعضاء کی پیوندکاری کے قائل ہیں، ان کے استدلال کی بنیاد دو چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایک شخص اپنی موت کے بعد اپنے اعضاء کسی ضرورت مند کو لگا دینے کی وصیت کرتا ہے تو اس کے خلاف دین کی کسی نص میں حرمت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ عمل اپنی ذات میں انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے۔ بہت سے حالات میں تو یہ دوسروں کی زندگی بچانے کا سبب بن جاتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک جائز عمل ہے اور کوئی دینی یا اخلاقی پہلو اس میں مانع نہیں۔ اس رائے کے مخالفین دوسری بات سے تو اختلاف نہیں کرتے اور نہ کرسکتے ہیں کہ یہ عمل دوسروں کے لیے ایک نفع بخش عمل ہے، مگرجہاں تک دینی نصوص کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک دین کے کئی نصوص اس کے جواز کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور ان سے بالواسطہ طور پر اعضاء کی پیوندکاری کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ یہ درج ذیل ہیں:
مخالفین کے دلائل
اعضاء کی پیوندکاری کا ایک سبب یہ ہے کہ یہ مرنے والے کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے دین میں مرنے والوں کا مُثلہ کرنا یعنی لاش کی بے حرمتی کرنا جیسے ہند نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے جسم کی بے حرمتی کی تھی، ایک فعل حرام ہے۔ اعضاء کی پیوندکاری میں بھی مرنے والے کے جسم کا مثلہ کیا جاتا ہے۔ اس کے جسم کو کاٹ پیٹ کر اعضاء کو نکالا جاتا ہے۔ اس عمل کے بغیر دوسروں کو اعضا نہیں لگائے جاسکتے۔ چنانچہ اعضاء کی پیوندکاری بغیر مثلہ کیے ممکن نہیں جو کہ فعل حرام ہے۔ اس لیے یہ ناجائز ہے۔
دوسری دلیل جو اسی سے پھوٹتی ہے کہ اگر اسی طرح لوگوں کے اعضاء کاٹ کر نکالے جاتے رہے تو مرنے کے بعد دفن کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں بچے گا۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ ہمارے اعضاء ہماری ملکیت ہی نہیں ہیں۔ ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم ان میں کسی قسم کا تصرف کریں۔ خود کشی کرنا اسی لیے حرام ہے۔ اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹنا یا جسم کو کسی اور طرح کا نقصان پہنچان اسی اصول پر ناجائز ہے۔ ایک فعل جب زندگی میں حرام ہے تو مرنے کے بعد بھی حرام ہے۔ چنانچہ اسی اصول پر مرنے کے بعد اعضاء عطیہ کرنے کی وصیت نہیں کی جاسکتی ہے۔
چوتھی دلیل یہ ہے کہ مرنے والے کے جسم کو کسی بھی قسم کی اذیت دینا اسے زندگی میں اذیت دینے کے مترادف ہے۔ مرنے والے کے جسم کے ساتھ چیر پھاڑ کرنا اور اعضا کو کاٹ کر نکالنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ کے جسم سے اعضا کو کاٹ کر نکالا جائے۔
پانچویں دلیل یہ ہے کہ انسان موت کے ساتھ مرتے نہیں ہیں بلکہ روز قیامت دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ ایسے میں اگر کسی نے اپنے اعضا عطیہ کر دیے ہوں گے مثال کے طور پر آنکھیں تو روز قیامت اس کی اپنی آنکھیں موجود نہیں ہوں گی اور نتیجے کے طور پر وہ اندھا رہ جائے گا اور آخرت کی زندگی میں ہمیشہ اندھا رہے گا۔
چھٹی دلیل جو اسی سے نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ پھر عذاب و ثواب میں قیامت کے دن بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر ایک شخص کی آنکھیں اگر دوسرے کو لگا دی گئیں تو عطیہ دینے والے نے اپنے آنکھوں سے جتنے گناہ کیے ہوں گے جیسے بدنگاہی وغیرہ تو اس کا نتیجہ عطیہ قبول کرنے والے کو بھگتنا ہوگا۔
ساتویں دلیل یہ ہے کہ اعضا کے پپوندکاری کے حق میں کوئی نص موجود نہیں۔ جتنے دلائل ہیں وہ عقلی ہیں۔ عقل کو حاکم سمجھنا معتزلہ جیسے گمراہ فرقوں کا کام ہے۔
جوابی دلائل
یہ اس فقیر کی ناقص معلومات کی حد تک ان دلائل کا خلاصہ ہے جو اس عمل کے مخالفین پیش کرتے ہیں۔ تاہم جواز کے قائلین ان تمام دلائل کا جواب دیتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
پہلی دلیل یعنی مُثلہ یا لاش کی بے حرمتی کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ اس کا تعلق انسان کی نیت سے ہے۔ جو لوگ مثلہ کرتے ہیں وہ نفرت اور انتقام کی آگ سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کا اصل مقصد اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنا اور لاش کی توہین کرنا ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اعضاء کی پیوندکاری کرنے والے ڈاکٹر کا نظریہ بالکل جدا ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ڈاکٹر کسی انسان کی زندگی میں آپریشن کرتا ہے تو اس کے پیش نظر مریض کو اذیت دینا نہیں ہوتا۔ گرچہ بظاہر اس میں اذیت کا پہلو ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح مرنے والے کے اعضا کو کسی کی زندگی بچانے کے لیے نکالنا مُثلہ نہیں بلکہ ایک خدمت ہے۔ یہی تمام متعلقہ لوگوں کی نیت ہوتی ہے۔ اس میں بے حرمتی کا کوئی سوال نہیں۔ اور دین میں اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے۔
دوسری دلیل یعنی مرنے کے بعد دفن کرنے کے لیے کچھ نہیں بچے گا کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اپنے مردے کو دفنانے کے پابند ہیں، لازمی پورا جسم دفنایا جائے اس کی پابندی دین نے نہیں لگائی۔ جنگ میں جب ایک فوجی اللہ کے لیے لڑنے جاتا ہے تو بارہا اس کے کئی اعضاء تلف ہو جاتے ہیں اور کبھی جسم کا بیشتر حصہ گولہ باری کی نذر ہو جاتا ہے۔ شہادت کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ دفنا دیا جاتا ہے۔ اسی اصول پر اس معاملہ کو دیکھنا چاہیے۔
تیسری دلیل یعنی اعضاء ملکِرب ہیں اور ان میں تصرف جائز نہیں کا جواب یہ ہے کہ انسان کی جان بے شک اللہ کی ملک ہے، مگر میدان جنگ میں ایک مجاہد اسی جان کا اور اپنے اعضا کا نقصان اللہ کی رضا کے لیے گوارا کر لیتا ہے۔ یہ دین میں سب سے بڑی نیکی سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح کسی کی جان بچانے کے لیے غیور اور بہادر لوگ اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔ کوئی نہیں کہتا ہے کہ انھوں نے غلط کیا بلکہ اس عمل کو عظیم ایثار اور قربانی سمجھا جاتا ہے۔ اسی پر اعضا کو بعد از مرگ عطیہ کرنے کو قیاس کرنا چاہیے۔ مرنے والے بلا وجہ اپنے اعضا ضائع نہیں کرتے نہ خود کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ان کے سامنے بھی ایک برتر مقصد ہوتا ہے۔ اس لیے یہ اللہ کی ملک میں تصرف نہیں بلکہ خدمت کا وہ عمل ہے جو محمود ہے۔
چوتھی دلیل یہ کہ یہ مرنے والے کو اذیت دینے کے مترادف ہے تو یہ استدلال بعض روایات کے سوئے فہم سے پیدا ہوا ہے۔ ان روایات میں اصل حکم میت اور قبر کے احترام کا ہے۔ جن لوگوں نے زندگی میں کبھی کسی مردہ جسم کو غسل اور تدفین کے وقت سنبھالا ہے وہ جانتے ہیں کہ ذرا سی بے احتیاطی سے مردہ جسم زمین پر آگرتا ہے۔ اس سے مردہ کے لواحقین کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی معاملے میں لوگوں کو حساس بنانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ کو زندہ سے تشبیہ دے کر سمجھایا ہے کہ مردے کو اذیت دینا گویا کہ زندہ کو اذیت دینے کے مترادف ہے۔ ورنہ معلوم بات ہے کہ موت کے ایک دو دن کے اندر خود فطرت کا قانون جو کچھ مردہ جسم کے ساتھ کرتا ہے وہ اگر کسی زندگی کے ساتھ ہو تو وہ اذیت کی آخری انتہا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کسی مومن کو یہ تکلیف دینا گوارا کریں گے؟ ہرگز نہیں۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ مومن کے جسم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اصل وجود تو پہلے ہی رخصت ہوچکا ہے اور اب معاملہ صرف جسم کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے۔ یہی اصول پیوندکاری کے لیے نکالے گئے اعضا پر منطبق ہوتا ہے۔ اصل ہستی کو تو فرشتے موت کے وقت ساتھ لے جاتے ہیں۔ پیچھے جسم بچتا ہے جس نے بہرحال گلنا سڑنا ہی ہے۔
پانچویں دلیل یہ ہے کہ مرنے والا اگر اپنے اعضا عطیہ کر گیا تو روز قیامت وہ ان اعضاء سے محروم ہوگا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تصور آخرت کی زندگی کے غلط فہم پر مبنی ہے۔ آخرت کے احوال تفصیل کے ساتھ قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان بیانات سے صاف واضح ہے کہ انسان کی شخصیت تو یہی ہوگی جو اس دنیا میں ہے، مگر اس کے جسم کی نوعیت بالکل مختلف ہوگی۔ سب کو معلوم ہے کہ وہاں کا جسم مرنے کے لیے نہیں بنا ہوگا۔ اس جسم میں انحطاط بھی نہیں ہوگا۔ اہل جنت کے جسم کی تفصیل تو ویسے بھی جو کچھ بیان ہوتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس نوعیت کا حیوانی جسم نہیں ہوگا جیسا کہ خون اور دیگر غلاظتوں پر مشتمل آج ہمارا جسم ہوتا ہے۔ بلکہ انسان کو ایک نیا قالب دیا جائے گا جو کہ انسان کے اعمال کے حساب سے تیار کیا جائے گا۔
مزید براں یہ کہ ایک شخص راہ خدا میں جنگ کرتے ہوئے اپنا ہاتھ پیر یا آنکھ گنوا بیٹھے تو کیا وہ بھی لنگڑا لولا اور اندھا اٹھایا جائے گا؟ اس سے بھی کہا جائے گا کہ تم تو اپنے اعضا ضائع کر کے آگئے اس لیے تمھیں کچھ نہیں ملے گا؟ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ اس کا عمل دیکھا جائے گا۔ نیت دیکھی جائے گی۔ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ ایک نیا اور مکمل قالب اسے عطا کریں گے۔ یہی آخرت کی زندگی کا اصول ہے۔
چھٹا مسئلہ عذاب و ثواب کا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نیکی و بدی کا ارتکاب انسان کی شخصیت کرتی ہے۔ اعضا و جوارح صرف ذریعہ ہوتے ہیں۔ جس وقت کوئی شخص مرتا ہے تو اس کا نامہ اعمال اس کی شخصیت کے ساتھ بھیج دیا جاتا ہے اور اکاؤنٹ بند ہو جاتا ہے۔ اب فرض کیجیے کہ اس کی آنکھ کسی اور کو لگ گئی ہے تو وہی اس کا ذمہ دار ہے۔ رہا عذاب و ثواب تو جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ یہ تصور ہی درست نہیں ہے کہ ٹھیک یہی والی آنکھ آخرت میں لگا دی جائے گی۔ قیامت کے دن دیے جانے والے اجسام اپنے ساخت اور صلاحیت دونوں کے لحاظ سے بالکل مختلف ہوں گے۔ مزید براں یہ کہ خود موجود دنیا کا جسم بھی ساری عمر ایک ہی نہیں رہتا۔ ہر لمحے انسانی جسم میں نئے خلیات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور کم و بیش دس برس میں پورا جسم بدل جاتا ہے۔ گویا ساٹھ برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ہماری آنکھیں چھ دفعہ بدل چکی ہوتی ہیں۔ تو کیا قیامت کے دن چھ مختلف آنکھیں لگا کر لوگوں کو سزا و جزا دی جائے گی۔
بات بالکل سادہ ہے کہ نیکی و گناہ انسانی شخصیت کرتی ہے۔ قیامت کے دن اس شخصیت کو نیا قالب دیا جائے گا۔ اسی قالب پر سزا و جزا ہوگی۔ جرم آنکھ نہیں کرتی انسان کرتا ہے۔ پاکدامنی آنکھ نہیں اختیار کرتی۔ انسان کرتا ہے۔ سزا و جزا اسی انسان کو ملے گی۔ اور اس سزا و جزا کے لیے روز قیامت اسے ایک نیا قالب دیا جائے گا۔ اس قالب کا تعلق انسان کے اعمال سے ہوگا۔ چنانچہ ایک کافر اور مجرم اِس دنیا میں بینا ہونے کے باوجود وہاں اندھا اٹھایا جائے گا اور راہ حق میں اپنے پاؤں گنوانے والا مکمل جسم کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
ساتویں اور آخری دلیل یہ کہ عقل کو حاکم سمجھنا گمراہی ہے تو بلاشبہ وحی پر عقل کو حاکم سمجھنا گمراہی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ کام تو کوئی نہیں کر رہا۔ اگر وحی صراحت سے یہ کہہ دے کہ یہ فعل حرام ہے تو بات ختم ہوگئی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں وحی خاموش ہے۔ جب خاموش ہے تو لوگ عقل استعمال کر کے اجتہاد کرتے ہیں۔ جنھوں نے مخالفت کی ہے انھوں نے بھی عقلی استنباط کر کے اجتہاد ہی کیا ہے۔ چنانچہ اتنے ’’معتزلہ‘‘ تو وہ بھی ہو ہی گئے۔ ایسے میں وحی کی روشنی میں عقلی استنباط کر کے حمایت کرنے والے کو معتزلہ قرار دینا کیسے درست ہے؟
حرف آخر
میرے نزدیک اس معاملے میں اہم ترین بات قرآن مجید کے اپنے بیانات ہیں جن کا تعلق انسانی زندگی کی حرمت، تحفظ اور اہمیت سے ہے۔ قرآن مجید بالکل واضح ہے کہ کسی کی جان بچانا پوری انسانیت کو زندگی دینے کے مترادف ہے۔ قرآن مجید جان کو بچانے کے لیے کلمہ کفر کہنے اور حرام تک کھانے کی جب اجازت دیتا ہے۔ جب جان بچانے کی یہ اہمیت ہے تو اس کے بعد اس مقصد کے لیے کچھ کرنا اور اسی ذیل میں کسی کی معذوری دور کرنا اعلیٰ ترین دینی اور اخلاقی عمل ہے۔ کسی کی جان بچانے کے جس مقصد کے لیے کلمہ کفر کہنے اور حرام کھانے کی اجازت ہے، اس کو حرام قرار دینے کے لیے کوئی استنباطی دلیل کافی نہیں۔ اس کے لیے صریح اور واضح نص درکار ہے جو بتاتی ہو کہ بعد از مرگ اعضا عطیہ نہیں کیے جاسکتے۔ ایسی کوئی دلیل ہمارے علم کی حد تک موجود نہیں ہے۔ تاہم اس کے باجود ہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ ہر شخص وہ نقطہ نظر رکھنے کا حق رکھتا ہے جسے وہ درست سمجھتا ہے۔ یہی اجتہادی معاملات میں درست طریقہ ہے۔
جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعث رحمت بن کر رہیے، باعث آزار نہ بنیے۔