لولاک ۔ ابویحییٰ
مجھ سے بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کی بڑائی پر تو بہت کچھ لکھتا ہوں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں مضامین کیوں نہیں لکھتا۔ حتی کہ ربیع الاول کے مہینے میں بھی نہیں۔ میں اس کے جواب میں دو باتیں کہتا ہوں۔ ایک یہ کہ معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اعلیٰ ترین سطح پر مدحت رسول کا کام کر رہے ہیں۔ ان کے کام ہی کا اثر ہے کہ اس معاشرے میں عشق رسول کی گرمی کمزور ترین ایمان کے مسلمان کے لہو میں بھی خون بن کر دوڑتی ہے۔ بڑے سے بڑا سیکولر اور غیر مذہبی اور عقلی آدمی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں بے پناہ جذباتی ہوتا ہے۔ ایسے میں کچھ لکھ کر میں کسی کمی کو پورا نہیں کروں گا۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ خود جو کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر کرتے رہے، جو دین کا بنیادی مطالبہ ہے، اس کے حوالے سے ایک عمومی غفلت پائی جاتی ہے۔ یعنی اللہ کا ذکر، اس کا شوق، اس کی تسبیح، اس کی تعریف، اس کی حمد اور اس کے کبر کا بیان۔ اس معاملے میں ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہر تقریر کے آغاز پر بلا سوچے سمجھے نحمدہ کہتے ہیں اور اختتام پر الحمد اللہ رب العالمین کہہ دیتے ہیں۔ ہمارے شعرا اور ادیب، مقرر اور خطیب، عالم و واعظ سب کا معاملہ کم و بیش یہی ہے۔ لیکن کبھی خدا کے نام سے ہماری زبان میں مٹھاس نہیں گھلتی، کبھی اس کی یاد میں دل نہیں تڑپتا، کبھی اس کی محبت میں آنکھوں سے آنسو نہیں ٹپکتے، کبھی اس کی ملاقات کے شوق میں موت کی تمنا پیدا نہیں ہوتی۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا رواں رواں، زندگی کے ایک ایک لمحے میں، ہر ایک لمحے میں اس کے احسانوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اس بات کو سب سے بڑھ کر اگر کسی نے جانا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ کی پوری زندگی خدا کے شوق اور اس کی یاد کے سوا کچھ نہیں تھی۔ آپ کی حیات:
الذین امنو اشد حبا للہ
(اہل ایمان تو سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں، البقرہ 165:2)
کا عملی نمونہ تھی۔ نہ صرف یہ آپ کی عملی زندگی تھی بلکہ یہی آپ کی دعوت بھی تھی۔ میں نے اگر یہ راستہ اختیار کیا ہے تو صرف اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں اختیار کیا ہے۔
میں جب اس مضمون کے بارے میں سوچ رہا تھا تو میں عین دوپہر کے وقت سڑک پر موجود تھا۔ سورج سر پر تھا اور اس کی تیز روشنی نے ہر شے کو منور کر رکھا تھا۔ مگر روشنی کے اس سیلاب کے باوجود جاتی سردی اور آتی بہار کے اس سورج میں کوئی تپش نہ تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری شخصیت کی اس سے اچھی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں مل سکتی۔ آپ کی ذات موسم بہار کا وہ سورج ہے جس میں بہت چمک ہے، مگر دھوپ نہیں۔ آپ ہدایت کی وہ روشنی ہیں جس کے بعد کوئی اندھیرا باقی نہیں رہ سکتا مگر آپ کی سیرت میں تپش کا کوئی ایسا عنصر نہیں جو ہم گنہ گاروں کے وجود کو جھلسا دے۔ مگر کتنی عجیب بات ہے کہ لوگ آپ کی ذات اور سیرت سے وہ سبق حاصل نہیں کرتے جس کا پیغام لے کر آپ آئے تھے بلکہ خود کو اپنی خواہشات کے اندھیروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں داخل ہوا۔ ابھی جماعت میں کچھ دیر باقی تھی۔ کچھ لوگ مسجد کی عمارت کے اندر نوافل پڑھ رہے تھے اور کچھ لوگ مسجد کے صحن میں۔ میں نے گھڑی دیکھی اور پھر ایک نظر موسم بہار کے ٹھنڈے سورج کو دیکھ کر کہا۔
لولاک یا رسول اللہ مادریت الکتاب ولا الایمان
(اے اللہ کے رسول! اگر آپ نہ ہوتے تو میں نہ ایمان کو جان پاتا اور نہ شریعت کو)
پھر میں سایہ میں کھڑے ہونے کے بجائے صحن میں پھیلی ہوئی سورج کی ٹھنڈی روشنی میں کھڑے ہوکر نوافل پڑھنے لگا۔