نرم گدا اور گرم صحرا ۔ ابویحییٰ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد آپ پر زیادہ تر نوجوان اور کمزور طبقات کے لوگ ایمان لائے۔ جبکہ سرداران قریش نے آپ کی دعوت کو رد کر دیا۔ جب دعوت پھیلنے لگی تو ان سرداروں کو اندیشہ ہوا کہ یہ نیا مذہب ان کی طاقت کو مکمل طور پر ختم نہ کر ڈالے۔ چنانچہ ابتدا میں انہوں نے مسلمانوں کو زبانی کلامی سمجھانے کی کوشش شروع کی۔ اس میں ناکامی کے بعد انھوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے۔
اس ظلم کا سب سے بڑا نشانہ وہ غلام اور کنیز بنے جن کا کوئی والی وارث نہ تھا۔ ان میں بلال، یاسر، صہیب، خباب، عمار، سمیّہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کے نام نمایاں ہیں۔ انھیں بری طرح مارا پیٹا جاتا، گلیوں میں گھسیٹا جاتا، بھوکا پیاسا قید کیا جاتا، جلتے لوہے سے داغا جاتا اور صحرا کی تپتی دوپہر میں زمین پر ننگے بدن لٹا کر اوپر گرم پتھر رکھ دیے جاتے۔ مگر وہ لوگ دین پر قائم رہے۔
ہم لوگ اس طرح کی باتیں جب لکھتے یا پڑھتے ہیں تو ٹھنڈے کمرے، گرم لحاف، نرم گدے میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ اسے کوئی کہانی سمجھ کر سرسری طور پر گزر جاتے ہیں۔ ہمیں نہیں احساس کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور ان کے اصحاب کی بے پناہ قربانیوں کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ کے لیے اس صورتحال سے نجات دلا دی ہے۔ ہمیں یہ احساس ہوجائے تو ہم پروردگار کے لیے سراپا شکر، نبی رحمت علیہ السلام اور ان کے صحابہ کے لیے سراپا درود بن جائیں۔
مگر ہم نرم گدے اور گرم لحاف میں سوتے ہیں اور فجر میں اٹھنا بھول جاتے ہیں۔ پیٹ بھر کھاتے ہیں اور نماز چھوڑ دیتے ہیں۔ کاروبار اور تفریح میں ہمیں اللہ کی یاد نہیں رہتی۔ جتنا کچھ ہمارا اسلام ہے وہ ذہنی عیاشی، زبانی جمع خرچ، روحانی انٹرٹینمنٹ کے سوا کچھ نہیں۔ کاش ہمیں یہ احساس ہوجائے کہ پچھلوں کی قربانیوں نے ہمارے لیے دین پر عمل کتنا آسان کر دیا ہے۔ ہمیں گرم صحرا میں ظلم سہہ کر نہیں نرم گدوں میں آسانی کے ساتھ دین پر عمل کرنا ہے۔