جنسی بے راہ روی ۔ ابویحییٰ
دور جدید میں مغربی تہذیب کو عالمی غلبہ حاصل ہے۔ یہ عالمی غلبہ کسی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کے اس قانون قدرت کا نتیجہ ہے جس کے مطابق دنیا میں جو قوم علم اور ٹیکنالوجی میں آگے ہوتی ہے اور اخلاقی طور پر ایک بہتر جگہ پر کھڑی ہوتی ہے، اسے دنیا پر غلبہ دے دیا جاتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ مغربی تہذیب صرف خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو انسانیت کے لیے موت کی حیثیت رکھتی ہیں اور رفتہ رفتہ معاشروں کو برباد کر دیتی ہیں۔ عریانی اور جنسی بے راہ روی مغربی تہذیب میں موجود ایسا ہی ایک عنصر ہے جو رفتہ رفتہ اس کے سماج کی جڑیں کھوکھلی کرتا چلا جارہا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی فطرت نہ عریانی کو پسند کرتی ہے اور نہ جنسی بے راہ روی کو۔ یہ چیزیں کبھی بھی انسانی تہذیب کا کوئی مستقل حصہ نہیں رہیں۔ مغرب میں بھی ان چیزوں کو رواج دینے کے لیے بہت سی تاویلیں گھڑی گئیں۔ بہت سے فلسفے ایجاد کیے گئے۔ بہت سے غیرمحسوس طریقے اختیار کیے گئے۔ تب ہی یہ ممکن ہوسکا کہ خواتین کو کم لباسی پر آمادہ کیا جاسکا۔ دائرہ نکاح سے باہر مرد و زن کے تعلق کو سماج میں قابل قبول بنایا جاسکا۔
ان تمام ذرائع میں جو عریانی اور فحاشی کو معاشرتی قدر بنانے میں معاون رہے، میڈیا کا کردار بہت غیر معمولی رہا۔ خاص کر سینیما نے اس سلسلے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ سینیما نے ایک مصنوعی دنیا تشکیل دی جس میں کردار بے دھڑک ہر حد کو عبور کر جاتے ہیں، مگر فلم دیکھنے والوں پر تاثر یہ پڑتا ہے کہ حقیقت کی دنیا میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت کی دنیا اس سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ مگر ایک مصنوعی چیز کو جب انسان مستقل حقیقت سمجھ کر دیکھتا رہتا ہے تو آخر کار وہ حقائق کو بدلنا شروع کر دیتا ہے۔ چنانچہ مغربی معاشروں نے لباس اور مرد و زن کے معاملات کے بارے میں وہی رویہ عملی طور پر اختیار کرلیا جو فلموں میں دکھایا جاتا رہا۔ یہ وہ مغربی خواب (Western Dream) تھا جو ہالی وڈ نے پہلے مغربی معاشروں کو دکھایا اور آخرکار ہالی وڈ فلموں کی عالمی مقبولیت کے سہارے بیشتر دنیا میں یہی خواب حقیقت بن کر چھا گیا۔
تاہم سچائی یہ ہے کہ اس خواب کی عملی تعبیر بہت بھیانک ہے۔ اس خواب نے خاندان کے ادارے کو بہت کمزور کر دیا۔ خاندان وہ فیکٹری ہے جہاں انسانی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ انسانی بچے دوسرے حیوانات کے برعکس طویل عرصے تک والدین کی مکمل نگہداشت کے محتاج ہوتے ہیں۔ ان کا جسم ہی نہیں بلکہ ان کی نفسیات کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ماں کی شفقت اور باپ کی چھاؤں میں پروان چڑھیں۔ ان بچوں کی عادات، اخلاق، رویے جن کے اثرات آنے والے دنوں میں ان گنت زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں، خاندان کی اسی چھتری تلے جنم لیتے ہیں۔ خاندان مستحکم ہوتا ہے تو بچے کی شخصیت مثبت بنیادوں پر اٹھتی ہے۔ خاندان بکھر جائے تو یہی بچہ ایک مجرم، ایک ظالم، ایک قاتل اور ایک بے حس شخص بن کر معاشرے کا ناسور بن جاتا ہے۔
مگر جنسی بے راہ روی کی وقتی لذت خاندان کی مضبوط اساسات کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ مرد و عورت کا رشتہ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹتا اور خاندان کا ادارہ ریت کے گھروندے کی طرح بکھر جاتا ہے۔ جوان مرد و عورت اس طرح کے حادثات سے وقتی طور پر متاثر ہوتے ہیں اور پھر زندگی اپنی ڈگر پر چل پڑتی ہے، مگر بچوں کی شخصیت اس عمل میں بکھر جاتی ہے۔ والدین کی علیحدگی انھیں اپنی زندگی کے سب سے بڑے سکون سے محروم کر دیتی ہے۔ ان کی زندگی قربانی، ایثار و محبت کے بجائے خود غرضی، جھگڑے، فساد اور بے صبری کا نمونہ بن جاتی ہے۔
جنسی بے راہ روی بظاہر ایک خوشنما چیز ہے۔ مگر اس کے نتائج معاشرے کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں۔ انسانیت نے یہ بات نہ سمجھی تو انسانوں کا مستقبل بہت خوفناک ہوگا۔