Take a fresh look at your lifestyle.

سوال و جواب ۔ عمرہ و حج میں دل کی کیفیت ۔ ابو یحییٰ

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ:
الحمد للہ، اللہ نے دو ہفتے پہلے عمرے کی سعادت نصیب کی۔ لیکن سر میں آپ سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتی ہوں۔ ہوا یوں کہ میں جن کیفیات اور محسو سات کا اندازہ کر کے وہاں گئی تھی وہاں جا کے میری کیفیت وہ نہ ہوئی۔ میں جب تک گئی نہ تھی تو بیت اللہ کا تصور کرکے اور اس کے بارے میں سن کر مجھے بہت رونا آتا تھا اور میں اللہ کے احساس اور اس جگہ کا تصور کرکے روتی تھی محبت میں سوچتی تھی جب آنکھوں سے دیکھوں گی تو کیا حالت ہوگی۔ لیکن جب میں وہاں گئی اور بیت اللہ کو دیکھا تو کوئی خاص احساس نہ جاگا۔ نہ بہت دل دھڑکا نہ بہت رونا آیا۔ اور میں بہت ڈر گئی کہ ایسا کیوں ہوا۔ شدت سے گناہوں کا احساس ہوا۔ پہلے دن کے بعد پھر فرق آگیا، مطلوبہ کیفیت نصیب ہو گئی، لیکن کیفیت بدلتی بھی رہی کبھی مایوسی اور بیزاری کبھی اللہ کا قرب دعاؤں کی قبولیت کا احساس۔ لیکن میں یہ سوچ کے گئی تھی کہ وہاں تو اللہ کی خاص رحمت کے سایہ میں خود کو محسوس کروں گی۔ دل ہر وقت اللہ کے قرب کو محسوس کرے گا۔ جو دعا مانگوں گی قبول ہوگی لیکن وہاں پر بھی میں بے چین ہوئی وسوسے آتے کہ اللہ قبول نہیں کرے گا کچھ بھی۔ اور کبھی بہت سکون ہوتا، اللہ کی رحمت محسوس ہوتی تو مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ دل بدل کیوں جاتا ہے، اللہ کا گھر، اسکا قرب اور میرا دل اتنا بند، الجھا ہوا۔ اور ایک خاص دعا جس کے لئے میں گئی تھی وہ مانگتے ہوے بھی دل الٹتا پلٹتا رہتا، کبھی دل کو یقین آجاتا ہوگئی قبول، کبھی بے یقینی کہ نہیں ہوگی۔ میں بہت خوفزدہ رہی وہاں۔ اور یہ بھی کہ لوگ کہتے ہیں وہاں اللہ کی رحمت ہوتی ہے مجھے تو وہاں اللہ سے ڈر زیادہ محسوس ہوا، مجھے اللہ کی بے نیازی محسوس ہوئی کے اللہ کو میری ضرورت نہیں ہے وہ مجھ سے بہت بے نیاز ہے، ہاں یہ ضرور سمجھ آگئی کہ میرا اس کے سوا کوئی نہیں۔ میں نے بہت توبہ بھی کی ہے اللہ سے معافی مانگی ہے۔ واپس آتے ہوئے پھر دل بند محسوس ہوا۔ میں نے اللہ سے بہت دعا کی کے مجھے تھوڑا سا احساس دے دیں کے میری دعائیں قبول ہو جائیں گی، لیکن دل کے اندر کوئی احساس نہیں جاگ رہا تھا، مجھے لگا میں مجرموں کی طرح واپس آرہی ہوں۔ خوفزدہ اور بے چین۔

واپس آکر الحمد للہ کچھ افاقہ ہے۔ نمازیں بھی کچھ اچھی ہوئی ہیں، دعاؤں میں بھی دل لگا ہے، اللہ سے تعلق بھی محسوس ہو رہا ہے۔ پھر جانے کو بھی دل مچل رہا ہے، مجھے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ وہاں جو میری کیفیت تھی وہ میرے گناہوں کا وبال تھا یا وہاں ایسی کیفیت باقی لوگ بھی محسوس کرتے ہیں۔ مجھے وہاں اللہ کا نیا انداز پتہ چلا، بے نیازی کا اور میں چاہتی ہوں اللہ مجھ سے بے نیاز نہ ہو مجھ پر رحمت کرے۔ میں اب اللہ کو راضی کر نے کی کوششوں میں ہوں میرے لیے دعا کریں۔ فائزہ خان

جواب: وعلیکم السلام
بیت اللہ کی حاضری کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود موضوع بنالیا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے اپنے احساسات و کیفیات اصل معیار نہیں بلکہ قران مجید کے الفاظ معیار ہیں۔ قران کریم میں اللہ تعالیٰ واضح طور پر بیان فرماتے ہیں کہ اس موقع پر جو نیکی کے کام تم کرو گے اللہ ان سے واقف ہے،(البقرہ197:2)۔ آیت 158 میں واضح ہے کہ اس موقع پر فرائض کے علاوہ جو نیکی کا کام انسان اضافی طور پر خوش دلی سے کرے تو جان لے کہ اللہ تعالیٰ بہت قدردان اور علم والے ہیں۔ سورہ حج آیت 36 میں اسی پس منظر میں واضح طور پر ایسے نیکوکاروں کو خوش خبری سنائی گئی ہے۔

آپ اور ہر زائر کو چاہیے کہ حج و عمرہ کے موقع پر اپنے دل کو معیار بنانے کے بجائے قرآن کریم کے ان بیانات کو معیار بنائے۔ اسے سمجھ لینا چاہیے کہ جس ہستی کے لیے وہ بیت اللہ گیا ہے وہ اس کے ایک ایک عمل سے واقف ہے۔ نہ صرف واقف ہے بلکہ بڑا قدردان بھی ہے۔ اور اسی لیے خوشخبری دے رہا ہے کہ ایسے نیکوکاروں کا اجر کسی صورت ضائع نہیں جائے گا بلکہ جنت کا بدلہ ان کا منتظر ہے۔

باقی رہی کیفیات تو وہ آنی جانی چیز ہے۔ کیفیات کی حکمت و مصلحت پر میں نے اس مہینے (فروری 2014) کے ماہنامہ انذار میں ”تیرا ملنا ترا نہیں ملنا” کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے۔ یہ جلد ہی سائٹ پر اپ لوڈ ہوجائے گا۔ اسے پڑھ کر اس حوالے سے آپ کے ذہن میں پیدا ہونے والے تمام اشکالات انشاء اللہ رفع ہوجائیں گے۔

بیت اللہ کے متعلق یہ بات سمجھ لیجیے کہ اس کا ایک خاص ماحول ہے۔ یہ ماحول بادشاہ کے دربار کا ماحول ہوتا ہے۔ اس میں شاہانہ عظمت و جلال ہی کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس میں بے نیازی ہی ہوتی ہے۔ مگر وہاں جاکر اصل اسی چیز کو دریافت کرنا ہوتا ہے کہ جو ہستی اتنی بے نیاز ہے وہ مجھ پر کس طرح مہربان ہوچکی ہے کہ مجھے یہاں بلالیا۔ حرم میں موجودگی کا مطلب ہی یہی ہے کہ مالی، جسمانی اور دیگر اعتبارات سے آپ ٹھیک ہیں۔ یہ کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ ان کا احسان مان کر شکر گزاری کا جذبہ محسوس کرنا چاہیے۔ یہ جذبہ لازماً اللہ کی نظر عنایت کو متوجہ کرے گا۔ چاہے ہم پر کوئی کیفیت طاری ہو یا نہیں۔
والسلام
ابویحییٰ