اسلام اور خواتین پر تشدد ۔ ابویحییٰ
کیا اسلام بیویوں پر تشدد کو جائز قرار دیتا ہے، یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جو قرآن مجید کے ایک طالب علم کے سامنے اس وقت آجاتا ہے جب وہ سورہ نساء کی آیت 34 کا مطالعہ کرتا ہے جس میں بظاہر عورتوں کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک اس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآنی آیات کا موقع محل سمجھنا ضروری ہے۔ میاں بیوی کے تعلق سے شوہروں کو جو اصل ہدایت دی گئی ہے۔ وہ اس آیت سے ذرا قبل اس طرح بیان ہوئی ہے۔
’’ایمان والو! (اپنی بیویوں سے) بھلے طریقے کا برتاؤ کرو، اِس لیے کہ تمھیں وہ پسند نہیں ہیں تو ہوسکتا ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اُسی میں تمھارے لیے بہت بڑی بہتری پیدا کر دے۔ ‘‘ ، (النساء 4 :19)
میاں بیوی کے تعلق میں یہ ہے وہ اصل آیت جو شوہروں کو حکم دیتی ہے کہ چاہے بیوی ناپسند ہو تب بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ۔ اس کے بعد بیوی کو مارنے کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ کمزور انسان اس دنیا میں ہر دور میں تشدد کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ بیویاں اس ستم کا ہمیشہ نشانہ رہی ہیں۔ زمانہ قدیم کو تو چھوڑیے موجودہ دور میں امریکہ میں ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کی سن 2000 کی رپورٹ کے مطابق 22.1 فی صد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ زمانہ قدیم میں کیا کچھ ہوتا ہوگا۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو ایک طرف گھر کا نظم برقرار رکھنے کے لیے بیوی کو شوہر کی موافقت پر ابھارنا ہے اوردوسری طرف مردوں کو تشدد سے باز بھی رکھنا ہے۔ چنانچہ اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت 34 میں ارشاد فرمایا:
’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اِس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اِس لیے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ پھر جو نیک عورتیں ہیں، وہ فرماں بردار ہوتی ہیں، رازوں کی حفاظت کرتی ہیں، اِس بنا پر کہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے۔ اور جن سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، اُنھیں نصیحت کرو، اور اُن کے بستروں میں اُنھیں تنہا چھوڑ دو اور (اِس پر بھی نہ مانیں تو) اُنھیں سزا دو۔ پھر اگر وہ اطاعت کریں تو اُن پر الزام کی راہ نہ ڈھونڈو۔ بے شک، اللہ بہت بلند ہے، وہ بہت بڑا ہے۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک طرف خواتین کو موافقت پر ابھارا ہے اور دوسری طرف شوہروں کی طرف سے مار پیٹ کے اس کام کو جو زمانہ قدیم کا عام دستور تھا ضوابط و قواعد کی ایسی بیڑیاں پہنا دیں کہ یہ تشدد نہیں رہتا بلکہ گھر بچانے کا ایک عمل بن جاتا ہے۔
اس ہدایت میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ ان کا تعلق عام خواتین سے بالکل نہیں ہے۔ بلکہ ان خواتین سے ہے جو نکاح کے سارے فوائد یعنی اپنی ضروریات کی ساری فراہمی کا فائدہ تو شوہر سے لینا چاہتی ہیں، مگر دوسری طرف سرکشی کا یہ حال ہے کہ گھر کے نظم کو برباد کر کے اور شوہر کے راز اور انسانی کمزوریاں سب کے سامنے کھول کر اسے رسوا کرنے کے لیے بھی تیار رہتی ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جن کا مسئلہ اختلاف رائے، اپنی پسند و ناپسند نہیں ہے بلکہ بغاوت، مستقل نافرمانی اور شوہر کو رسوا کرنے کا ہے۔ ایسے میں شوہر کے لیے ایک راستہ فوری طلاق دینے کا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ بچے ہوجانے کے بعد یہ راستہ آسان نہیں رہتا۔ چنانچہ ایسی خواتین کو پہلے مرحلے میں سمجھایا جائے گا۔ پھر شوہر جس غرض سے عورتوں سے شادی کرتے ہیں، اس کو بھی چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی بستروں میں ان سے الگ ہوجانے کا حکم ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت سخت پیغام ہے جس میں شوہر بیوی کے حقوق تو دیتا ہے مگر اپنے حقوق چھوڑ دیتا ہے۔
اس کے بعد گھر بچانے کے لیے اور عورت کی نفسیات کو جھنجھوڑنے کے لیے ایک آخری راستہ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ ان کو کچھ سزا دی جاسکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نوعیت کو بالکل واضح کرتے ہوئے بتا دیا کہ یہ کسی قسم کا تشدد نہیں ہوگا بلکہ جیسے ایک ماں اپنے بچے کی تادیب کے لیے کچھ ہلکی پھلکی ضرب لگا دیتی ہے اتنا ہی معاملہ ہونا چاہیے۔ حدیث کے الفاظ ’غیر مبرح‘ کے ہیں یعنی وہ سزا جو پائیدار اثر نہ چھوڑے، (مسلم، رقم 2950)۔
اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان آیات کا تعلق عام خواتین سے ہرگز نہیں جیسے کہ قرآن واضح ہے کہ اصل ہدایت یہ ہے کہ بیوی چاہے ناپسند ہوتب بھی اس سے اچھا برتاؤ کرو۔ اس ہدایت کا تعلق کچھ سرکش خواتین سے ہے جو نکاح میں رہنا بھی چاہتی ہیں اور شوہر کے خلاف مستقل اعلان جنگ بھی کیے رکھتی ہیں۔ چنانچہ ان کی اصلاح کے لیے یہ ایک لائحہ عمل دیا گیا ہے نہ کہ ان پر تشدد کے لیے۔ اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
رہی یہ بات کہ زیادتی اگر شوہر کر رہا ہو تو اس کو روکنے کا کیا طریقہ ہے۔ کیا ریاست کو اس میں مداخلت کرنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک اس کا بہتر حل وہ ہے جو خود قرآن مجید نے اگلی آیت یعنی 35 میں تجویز کر دیا ہے کہ دونوں کے خاندان بڑ ے بوڑھے آگے آئیں اور معاملات کو درست کرنے کی کوشش کریں۔ یہ ریاست کی مداخلت سے بہتر راستہ ہے۔ تاہم اگر شوہر بیوی پر تشدد شروع کر دے تو پھر ریاست کو مداخلت کرنا ہوگی۔ پھر اس شخص کو سزا ملنی چاہیے۔ یہ سزا ایک شوہر کو نہیں ایک ظالم کو ملے گی۔ آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ اس آیت کا ایک واضح پیغام شوہروں کے لیے ہے۔ وہ یہ کہ انھوں نے اِن ابتدائی دو مراحل اور بیویوں کی بغاوت اور سرکشی کی کسی کیفیت کے بغیر محض غصے میں آکر، معمولی اختلاف رائے پر بیویوں پر ہاتھ اٹھایا تو وہ اللہ کے مجرم ہیں۔ وہ بلند اور اعلیٰ ہستی جب کمزور بیویوں کی طرف سے حساب لے گی تو شوہروں کو اپنا غصہ اور تشدد بہت مہنگا پڑے گا۔