ہم جنس پرستی ۔ ابویحییٰ
محترم قارئین! قدیم انسانی تاریخ میں جس سب سے بڑی گمراہی نے انسانیت کو اپنے شکنجے میں کسا وہ شرک تھا۔ ایک زمانے میں یہ گمراہی اتنی بڑھی کہ اس نے سماج اور ریاست دونوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔ تنہا ایک خدا کی عبادت کرنا، سماج سے کٹ کر اپنا مذاق بنا لینے کے مترادف تھا۔ مشرکین دنیا کی ہر ریاست پر قابض تھے اپنا دین شرک بالجبر لوگوں پر نافذ کرتے۔ اگر انبیا کی رہنمائی میں کوئی فرد یا گروہ شرک چھوڑ کر توحید کی راہ اختیار کرتا تو موت کی سزا پاتا۔
تاہم کروڑوں اربوں درود و سلام ہوں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب پر کہ ان کی بے پناہ قربانیوں نے شرک کی گمراہی اور اس کے ظلم سے ہمیں نجات دی اور قیامت تک کے لیے دین کے نام پر جبر اور اپنا خودساختہ دین دوسروں پر ٹھونسنے کا دور ختم کر دیا۔
ایک نئی گمراہی
تاہم دور جدید میں ایک اور برائی اسی طرح عالمی طور پر ہر جگہ پھیل چکی ہے جس طرح زمانہ قدیم میں شرک عام ہوا تھا۔ یہ برائی جنسی بے راہ روی کی برائی ہے۔ دور جدید میں اب کم و بیش تمام متمدن دنیا میں یہ مان لیا گیا ہے کہ بدکاری کوئی برائی نہیں اور عفت کوئی اخلاقی قدر یا خوبی نہیں ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک دن میں نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے پچھلی کئی صدیوں کے علمی اور سماجی افکار اور صنعتی دور میں پیدا ہوجانے والا طرز معاشرت ہے۔ تاہم انفارمیشن ایج سے قبل عفت کی موت مغربی سماج کا خاصہ تھی۔ مگر گلوبل ویلیج اور انفارمیشن ایج کے زمانے میں یہ برائی اب ساری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ مغربی تہذیب کے اثرات کے نتیجے میں دنیا کی دیگر اہم تہذیبیں یعنی چینی، ہندی، مسلم تہذیبیں بھی تیزی سے بدکاری کو بطور ایک قدر کے معاشرتی زندگی کا حصہ بنا رہی ہیں۔ یہ بظاہر اب نصف صدی ہی کی بات ہے کہ مغربی دنیا کی طرح باقی دنیا میں بھی زنا عام ہوجائے گا اور عفت و عصمت کا تصور اسی طرح اجنبی ہوجائے گا جس طرح زمانہ قدیم میں توحید کا تصور ہوچکا تھا۔
جنسی بے راہ روی کے اس سیلاب کے کئی دھارے ہیں۔ اس کا ایک نیا دھارا جسے مغرب میں بھی حال ہی میں سماجی اور قانونی قبولیت حاصل ہوئی ہے ہم جنس پرستی ہے۔ پہلے یورپ اور اب نارتھ امریکہ میں بھی ہم جنس پرستی کو سماجی اور قانونی سطح پر قبول کرلیا گیا ہے۔ گرچہ آج بھی اس کی مخالفت کئی حلقوں کی طرف سے کی جاتی ہے، مگر یہ تنقید اور مخالفت پوری طرح موثر نہیں رہی ہے۔
پوسٹ ماڈرن ازم
انسانی سماج کبھی کسی برائی کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ فکری طور پر اس کے حق میں فضا ہموار ہو۔ ہم جنس پرستی کی سماجی اور قانونی سطح پر قبولیت کی اصل وجہ پوسٹ ماڈرن ازم کے وہ افکار ہیں جن کے مطابق انسانی جذبات اور خواہشات کو عقلی تصورات پر فوقیت حاصل ہوچکی ہے اور انسانی اقدارکی قدر و قیمت اضافی قرار دے دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اقدار اور معقولیت جیسی چیزیں اپنی قدر کھو دیتی ہیں تو پھر معاشرے میں ہر قسم کے انحراف کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ یہی ہم جنس پرستی کے معاملے میں ہوا ہے۔
جدید دنیا میں اب یہ مان لیا گیا ہے کہ افراد اپنی ذاتی زندگی میں باہمی رضامندی سے جو کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ڈالی جاسکتی۔ رہا سماج تو اس سے نمٹنے کے لیے یہ استدلال تخلیق کیا گیا ہے کہ بہت سے افراد کے لیے یہ کوئی انحراف نہیں ہوتا بلکہ ان کی جینیاتی اور نفسیاتی ساخت کی بنا پر یہ ان کے لیے عین فطری طریقہ ہے۔
مخالفین کے استدلال کی ناکامی
مغرب میں اتنی آسانی سے اس فعل کو قبول عام حاصل نہیں ہوا ہے۔ روایتی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے اس میں بڑی مزاحمت ہوئی ہے۔ لیکن آخرکار ان کے استدلال کو شکست ہوئی۔ مذہبی استدلال سے مراد یہ ہے کہ مذہبی کتابوں اور مذہبی قانون میں اسے ہمیشہ ایک بہت بڑا جرم سمجھا گیا ہے۔ قوم لوط کا واقعہ چونکہ بائبل کی ابتدا ہی میں بیان ہوا ہے اور یہود و نصاریٰ کی مذہبی روایت میں ہم جنس پرستی کو ایک بڑا جرم سمجھا جاتا تھا اس لیے اس کا گناہ ہونا ایک مسلمہ تھا۔ تاہم اہل مذہب کی اپنی انتہا پسندی کی وجہ سے مذہبی اعتقادات اور معیارات کو مغرب میں بہت پہلے ہی شکست ہوچکی تھی۔ اس لیے جب اس بنیاد پر ہم جنس پرستی کی مخالفت کی گئی تو اس کی کوئی خاص شنوائی نہیں ہوئی۔
مغربی سماج میں اصل رکاوٹ فطری استدلال تھا۔ یعنی انسانی فطرت اس چیز کو قبول نہیں کرتی اور اسے ہر حال میں ایک انحراف خیال کرتی ہے۔ پھر انسان کے سامنے جنسی تعلق کی اصل بنیاد یعنی مرد و عورت کا نکاح کے ذریعے اپنے جذبات کی تسکین کا راستہ اس قدر واضح طور پر کھلا ہوا ہے کہ عام حالات میں لوگ خود ہی ایسے انحرافات سے دور رہتے ہیں۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جن معاشروں میں مرد و زن کو ہر طرح کی جنسی آزادی بے روک و ٹوک دے دی جائے تو وہاں یہ انحراف خود بخود جگہ پالیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا جنسی جذبہ لامحدود طور پر طاقتور ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا تکمیل لذت کے نہیں بلکہ تعارف لذت کے اصول پر بنائی ہے۔ چنانچہ مذہب نے نکاح کے قانون اور دیگر کئی ذرائع سے انسانوں کے اس جذبے پر پابندیاں لگا کر ان کی یہ تربیت کی ہے کہ وہ اسے خود پر سوار نہ ہونے دیں۔
مگر جن معاشروں میں جنسی جذبہ کو ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد کر دیا جائے تو اس کے نتیجے میں انحرافات جنم لیتے ہیں۔ تکمیل لذت کی خواہش میں انسان اندھا ہوکر ہر بند دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم جنس پرستی بھی ایسا ہی ایک بند دورازہ ہے جسے کھولنا بہت سے لوگوں کے لیے ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ یہی مغرب میں بھی ہوا۔ وہاں لوگوں نے تکمیل لذت کی خاطر اس بند دروازے کو بھی کھول ڈالا۔
تاہم پھر فطرت سے لڑنے کے لیے انھیں اس کی اخلاقی اور عقلی توجیہ کرنی پڑی۔ وہ توجیہ یہ تھی کہ بہت سے لوگوں کے لیے اپنی جینیاتی اور نفسیاتی ساخت کی بنا پر ہم جنس پرستی ہی عین فطرت ہے اور یہ کسی قسم کی کوئی بیماری یا انحراف نہیں۔ مزید یہ کہ معاشرے کو یہ باور کرایا گیا کہ اگر اسے سماجی سطح پر کوئی برائی سمجھا گیا تو اس کا بہت برا اثر ان لوگوں کی نفسیات پر پڑے گا۔ سب سے بڑا اور مضبوط استدلال یہ کیا گیا کہ ہم جنس پرستی بعض جینیاتی وجوہات کی بنا پر کچھ لوگوں کے لیے عین فطرت ہے۔ یہ اگر ان کی فطرت ہے تو انھیں اس سے ہٹانا ان پر بدترین ظلم ہے۔ پھر مزید یہ بھی بار بار بیان کیا گیا کہ ہم جنس پرست دوسروں سے زیادہ اچھے انسان، قانون پسند، پرامن شہری ہوتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں اس تواتر کے ساتھ دہرائی جاتی رہیں کہ آخرکار مغربی سماج نے قانون اور اقدار کی سطح پر یہ مان لیا کہ ہم جنس پرستی ایک نارمل رویہ ہے۔ چنانچہ 1990 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزئش (WHO) نے اسے ذہنی امراض کی فہرست سے نکال دیا۔ جس کے بعد ایک ایک کرکے تمام مغربی ممالک، جنوبی امریکہ، کینیڈا اور امریکہ میں انفرادی ریاستیں ہم جنس شادی کو باقاعدہ قانونی قبولیت دیتے چلے جارہے ہیں۔
ہم جنس پرستی کے خلاف ہمارا مقدمہ
زنا کی طرح ہم جنس پرستی بھی مشرقی اور اسلامی معاشروں میں اجنبی نہ تھی۔ صرف اسے عقلی اور اخلاقی جواز حاصل نہ تھا۔ تاہم اب انٹر نیٹ کے ذریعے اس کے جواز پر مبنی لٹریچر چونکہ عام ہوچکا ہے اس لیے ہمارے ہاں اسے تیزی سے فروغ مل رہا ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ نہیں کہ اس چیز کے خلاف نفرت آمیز گفتگو کی جائے بلکہ ضروری ہے کہ ہم استدلال کی سطح پر مذہب کا مقدمہ لوگوں کے سامنے رکھیں۔
اس سلسلے کی پہلی گزارش یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کے حق میں جینیاتی اور نفسیاتی بنیادوں پر یہ استدلال کرنا کہ یہ کچھ لوگوں کے لیے عین فطری رویہ ہے، ہر اعتبار سے ایک غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی وجود میں ابھی تک کوئی ایسا جین دریافت نہیں ہوا جو یہ طے کرتا ہے کہ کسی شخص کے جنسی رجحانات کیا ہوں گے۔
کیا یہ جینز کا مسئلہ ہے؟
اس معاملے میں مغرب میں ابھی تک کسی gay gene کی تلاش پر بحثیں اور تحقیق جاری ہے۔ جو چیز ابھی مرحلہ تحقیق پر ہو اور اس کے بارے میں متضاد باتیں سامنے آرہی ہوں اس کی بنیاد پر کسی چیز کو عین فطرت قرار دے دینا کس طرح درست ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ ایک مسلمہ علمی اور سائنسی حقیقت ہے کہ جنسی رجحانات صرف جینز ہی سے طے نہیں ہوتے۔ بلکہ اس کے ساتھ انسانی جسم میں کام کرنے والے ہارمون، انسان کی ابتدائی تربیت و حالات اور سماجی اثرات کا بھی بہت اثر ہوتا ہے۔ اس لیے صرف جینز کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا ویسے ہی درست نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ تربیت کی بنیاد پر اپنے بنیادی نفسیاتی رجحانات بشمول جنسی رجحانات کو بھی طے کرلیتی ہے۔ اس کی ایک بہت سادہ اور عام مثال یہ ہے کہ عام لوگ اجنبی خواتین کے برعکس اپنی محرمات میں کوئی جنسی کشش محسوس نہیں کرتے۔ یہ کوئی فطرت نہیں ہے بلکہ یہ تربیت اور ماحول کا اثر ہوتا ہے جو کسی عام مرد کے جنسی رجحان کا رخ اس کی اپنی ماں، بہن یا بیٹی کی طرف سے ہٹا دیتا ہے۔ حالانکہ ان کے جینز میں تو سرتاسر عورت کی کشش موجود ہوتی ہے۔ اس سے معلوم یہ ہوا کہ تربیت اور ماحول کے اثرات جینز پر بھی غالب رہتے ہیں۔ اس لیے جب تک کوئی شخص نفسیاتی طور پر، کسی بھی وجہ سے، ہم جنسی پرستی میں ملوث ہونے کے لیے تیار نہ ہو اس کے جینز اسے زبردستی ہم جنس پرستی میں مبتلا نہیں کرسکتے نہ اسے اس کی فطرت بنا سکتے ہیں۔ ہاں وہ خود نفسیاتی طور پر اس کے لیے تیار ہوجائے تو پھر جینز کچھ بھی کہتے رہیں، آدمی یہ کرکے ہی دم لیتا ہے۔
چنانچہ یہ فطرت والی بات بس ہوائی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ارتقا کے حامی اخبارات و رسائل میں ہر ہفتے ادھر اُدھر کی کوئی نہ کوئی چیز شائع ہوتی رہتی ہے۔ ایسی چیزیں کسی شخص کو اپنے نقطہ نظر پر اعتماد تو دے سکتی ہیں، مگر علم کی دنیا میں اسے کسی مسلمے کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔
انسان کا حیوانی وجود
جو لوگ جینیاتی اور فطری بنیادوں پر ہم جنس پرستی کے حق میں دلائل دیتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو کس خلقت پر پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جینز کے ساتھ ایک جسم بھی دیا ہے۔ مرد و زن کے مختلف جینز ان کے جسم کو ایک خاص جسمانی ساخت دیتے ہیں۔ اس مختلف حیوانی ساخت میں یہ جینز اور مرد و زن کا حیوانی وجود پکار پکار کر یہ بتاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے بنا ہے۔ ظاہر ہے کہ حیا مانع ہے کہ اس حقیقت کی تفصیل بیان کی جائے مگر انسان جانتا اور سمجھ سکتا ہے کہ مرد کا جسم مرد کے لیے اور عورت کا جسم عورت کے لیے نہیں بنایا گیا۔ صنف مخالف ایک دوسرے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ ایک دوسرے میں فطری اور ہمہ وقت کشش محسوس کرتے ہیں۔ جب یہ نکاح کے تعلق سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑے فطری طریقے سے اولاد کی داغ بیل پڑتی ہے۔ اس کے بعد عورت کا پورا انسانی وجود بچوں کی تخلیق اور پرورش کی فیکٹری بن جاتا ہے۔ وہ اسے اپنے اندر پروان چڑھاتی، جنم دیتی، اپنے اندر سے اس کی غذا کا بندوبست کرتی اور اس ننھی کونپل کو اپنے نرم ہوا سے زیادہ لطیف وجود سے جلا بخشتی ہے۔ یہ فطرت ہے۔ یہی عین فطرت ہے۔ پتہ نہیں وہ کون لوگ ہیں جو اس کے علاوہ کہیں اور سے فطرت اور جینز کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انسانی جینز مرد و زن کے اعضا اور انسانی فطرت مرد و زن کے مزاج میں چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ سیدھا راستہ یہاں ہے۔ فطرت کے اس سیدھے راستے کو چھوڑ کر کہیں اور جانے والے لوگ انحراف ہی کا شکار ہوتے ہیں۔ خالق فطرت نے جب اس حوالے سے انسانوں کو اپنی منشا سے براہ راست آگاہ کرنا چاہا تو اپنے جلیل القدر پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کی زبانی کلام کیا۔ ان کی قوم اس فعل بد میں ذوق و شوق سے مبتلا تھی۔ چنانچہ ان کے اس جاہلانہ فعل سے انھوں نے اس طرح اظہار برأت کیا:
”کیا تم لوگ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو! بلکہ تم بڑے ہی جاہل ہو!،”(النمل 55:27)
یہ آیت اس ضمن میں پیدا ہونے والی ایک اور غلط فہمی کو رفع کرتی ہے۔ وہ غلط فہمی یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک قوم لوط کا اصل جرم ہم جنس پرستی نہیں بلکہ اس فعل بد پر جبر تھا۔ یہ استدلال اس واقعے سے کیا جاتا ہے جس کے مطابق حضرت لوط کے ہاں فرشتے نوجوان لڑکوں کی شکل میں آئے تو یہ لوگ ان کو زبردستی حضرت لوط کے مکان سے نکالنے کے لیے آگئے۔ لیکن یہ آیت حضرت لوط کی زبانی یہ واضح کر رہی ہے ان کا اصل جرم اپنی عورتوں کے بجائے مردوں سے شہوت رانی کرنا تھا۔ یہی بات ایک دوسری جگہ یوں بیان کی گئی ہے۔
”کیا تم خلق میں سے مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو۔ اور تمہارے رب نے تمہارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑتے ہو۔ بلکہ تم لوگ نہایت ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔ وہ بولے کہ اے لوط! اگر تم باز نہ آئے تو تم لازماً یہاں سے نکال چھوڑے جاؤ گے۔ اس نے کہا، میں تمہارے اس عمل سے سخت بیزار ہوں۔ اے رب! تو مجھے اور میرے اہل کو ان کے عمل کے انجام سے نجات دے۔”،(الشعرائ26: 169-165)
فرشتوں والا واقعہ اتمام حجت کے لیے پیش آیا۔ اس لیے کہ رسولوں کے باب میں اللہ کا یہ قانون ہے کہ اتمام حجت کے بعد بھی وہ کسی قوم پر ہاتھ اسی وقت ڈالتے ہیں جب قوم رسول پر چڑھائی کر دے۔ یہ براہ راست اللہ تعالیٰ پر حملہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے اور نتیجے کے طور پر فوراً اس قوم کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہی قوم لوط کے ساتھ ہوا کہ انھوں نے لڑکے نظر آنے والے فرشتوں کی خواہش میں حضرت لوط کے گھر پر چڑھائی کی اور جواب میں عذاب آگیا۔
مذہبی استدلال:”قطع سبیل”
مذہب اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہم جنس تعلق ایک بہت بڑا جرم اور فطرت کے خلاف ایک جنگ ہے۔ قرآن مجید اسے قوم لوط ہی کے حوالے سے ”قطع سبیل” یعنی فطرت کی راہ کاٹنے (العنکبوت29:29) سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ کس طرح فطرت کی راہ کاٹنا ہے اس کے لیے انسانی سماج کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
انسانی سماج ایک اجتماعیت پسند سماج ہے۔ یہ اجتماعیت تعلقات سے وجود میں آتی ہے۔ تعلقات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلا عارضی تعلق جو بہت بڑے دائرے میں پھیلا ہوا ہے اور کم و بیش پورے سماج کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ تعلق ضرورت، مفاد، ذوق، نظریات اور جذبات و احسات وغیرہ کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔ دکاندار اور گاہک کا تعلق ضرورت کا ہے۔ باس اور ملازم کا تعلق مفاد کا ہے۔ دوستی ذوق اور مزاج سے پھوٹی ہے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں لوگ نظریات کی بنیاد پر ایک تعلق پیدا کرتے ہیں۔ کسی انسان سے محبت کا تعلق جذبات و احساسات کی پیداوار ہوتا ہے۔
انسانی سماج انھی عارضی تعلقات سے عبارت ہے۔ مگر ان تعلقات کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ضرورت، مفاد، ذوق، نظریات اور جذبات کسی وقت بھی بدل سکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں تعلق ختم ہوجاتا یا کسی اور کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ضرورت اور مفاد کو تو چھوڑیے لوگ ذوق، نظریہ اور جذباتی تعلق کو بھی ایسے بھولتے ہیں کہ کبھی یاد نہیں آتا۔
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے نام محو بھی اکثر کے ہوگئے
جبکہ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک نفسیاتی وجود ہے۔ اسے اپنی تشکیل، تربیت اور تکمیل کے لیے کوئی ایسا تعلق چاہیے جو مستقل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مرد و عورت کے جنسی تعلق کو بنیاد بنایا ہے۔ اس تعلق کی پہلی خوبی یہ ہے کہ اس سے انسان وجود میں آتے ہیں۔ دنیا میں کوئی اور تعلق انسانوں کو وجود میں نہیں لاسکتا۔ ظاہر ہے کہ نسل انسانی کا باقی رہنا انسانیت کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے۔ مرد عورت کا جنسی تعلق سب سے پہلے اسی بنیادی انسانی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
اس تعلق کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس سے وہ رشتے پیدا ہوتے ہیں جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے مستقل ہوتے ہیں۔ پیدا ہونے والے بچے کی ماں اور اس کا باپ بہرحال اس کی موت تک ایک ہی رہتا ہے۔ یہی حیثیت بہن، بھائی اور دیگر تمام رشتہ داروں کی ہے کہ ان سے تعلق مستقل ہوتا ہے۔ یہی وہ رشتے ہیں جو پچپن کے عجز، بڑھاپے کے ضعف، بیماری کی مشقت، محتاجی کی ضرورت میں فطری طور پر ہمیشہ اور ہر حال میں انسان کی مدد کو آتے ہیں۔
یہی قریبی رشتے ہیں جو اپنا وقت، محنت، پیسہ قربان کرکے انسان کے بچپن کی ناتوانی کو جوانی کی قوت دیتے ہیں۔ پھر یہی وہ رشتے ہیں جو ہر سرد و گرم میں انسان کا ذہنی، نفسیاتی، مالی اور جسمانی طور پر ساتھ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بڑھاپے کی ناتوانی کو اپنے بازوؤں سے سہارا دیتے اور موت کے بعد اپنے کندھوں پر اٹھا کر آخری سفر پر روانہ کرتے ہیں۔
ہم جنس پرستی اصل میں انھی بنیادی انسانی رشتوں کی جو مرد و عورت کے جنسی تعلق سے پیدا ہوتے ہیں، جڑ کاٹ دیتی ہے۔ ایک ہم جنس پرست جوڑا کبھی اولاد جنم نہیں دے سکتا۔ یہ کام صرف میاں بیوی کرسکتے ہیں۔ پانچ سات سال بعد میاں بیوی کا دل اگر ایک دوسرے سے بھر بھی جائے تب بھی وہ اولاد کی خاطر ساتھ رہتے اور ان کی پرورش کی ساری ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں۔ جبکہ ہم جنس پرستی کوئی رشتہ نہیں بس ایک عارضی تعلق ہے۔ جس روز دل بھرا، ذوق بدلا، جذبہ ٹھنڈا ہوا، احساس ختم ہوا، یہ تعلق ختم۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ نئے ہم مشرب کی تلاش۔ مگر جنس کا جذبہ تو زیادہ وقت نہیں گزرے گا ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ اس کے بعد تلاش کس بنیاد پر ہوگی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہم جنس پرستی کے کسی حامی کے پاس نہیں ہے۔
انسانوں کے ساتھ ظلم
ہم جنس پرستی دراصل خاندان کے خاتمے کا نام ہے۔ خاندان ایک مرد و عورت کے جنسی تعلق کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنسی تعلق میں اس قدر طاقت ہی اس لیے رکھی ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے انسانوں کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اولاد کو جنم دیں اور پھر اس کا بوجھ اٹھائیں۔ مگر بدقسمتی سے مغرب کی جنسی آزادی کے تصور نے خاندان کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ مردو عورت کا تعلق جو صرف جنسی کشش کی بنیاد پر قائم ہو وہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ یہ بار بار ٹوٹتا ہے۔ ایسے میں کہیں اولاد ہوجائے تو سب سے زیادہ اسی کے لیے مشکل ہوجاتی ہے۔
اولاد کا مقدر یہی ہوتا ہے کہ ماں کہیں ہو اور باپ کہیں اور۔ یو ں بچہ ماں یا باپ یا بعض اوقات دونوں کے لمس اور تربیت سے محروم رہ جاتا ہے۔ ہم جنس پرست جوڑے یہ ستم ایک اور طرح ڈھاتے ہیں۔ وہ اولاد کی خواہش پوری کرنے کے لیے بچہ گود لے لیتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اسے ماں کے لطیف لمس سے کون روشناس کرائے گا۔ اگر جوڑا خواتین کا ہے تو باپ کی نگہبانی کا احساس کون دلائے گا۔ ایک دوسرے سے دل بھر گیا تو لے پالک اولاد کا کیا ہوگا۔
چنانچہ ایسے تمام بچے شدید قسم کے نفسیاتی مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔ لیکن مغرب میں یہ سسٹم برا بھلا اس لیے چل رہا ہے کہ وہاں بچوں کی معاشی ذمہ داری اور اسی طرح بزرگوں کی ذمہ داری بھی اسٹیٹ نے لے رکھی ہے۔ معاشی فراخی کی بنا پر آج یہ ان کے لیے کرنا آسان ہے۔ مگر جب کبھی معاشی زوال آیا تو پھر خاندان کے سوا انسان کی جائے پناہ کوئی نہیں رہے گی۔ یہ صرف خاندان ہوتا ہے جو ہر طرح کے حالات اور ماحول میں ہزاروں برس سے کمزور بچوں اور ناتواں بوڑھوں اور غریب و پریشان حال رشتہ داروں کو سنبھالتا آیا ہے۔ چنانچہ یہ بالکل واضح ہے کہ ہم جنس پرستی تعلق نسل انسانی اور خاندان دونوں کی جڑ کاٹ ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی کو قرآن مجید ”قطع سبیل” یعنی فطرت کی راہ مارنے سے تعبیر کرتا ہے۔
پاکستان اور ہم جنس پرستی
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہم جنس پرستی کے رجحانات عام ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ سرتاسر ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ یہ زیادہ تر بچوں کی ابتدائی تربیت کی خرابیِ، غلط ماحول اور بعض اوقات والدین کی بے توجہی اور بے رحمانہ سلوک سے پیدا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جس طرح کے حالات ہیں، والدین بچوں کی تربیت سے جس طرح بے پروا ہیں، بچوں پر تشدد عام ہے، اس میں دیگر نفسیاتی انحرافات کی طرح ہم جنس پرستی کے پھیلنے کے بڑے روشن امکانات ہیں۔ اس پر مزید مغربی اور انڈین میڈیا نیز انٹرنیٹ سے جنسی بے راہ روی کی پیہم یلغار ہے۔ اور اب اس سے آگے بڑھ کر ہم جنس پرستی کے حق میں کیے گئے پروپیگنڈے کا انٹرنیٹ کے ذریعے سے باآسانی پہنچنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جس میں متاثرہ شخص اس مسئلے کو نفسیاتی مسئلہ سمجھنے کے بجائے اپنی فطرت سمجھنے لگتا ہے۔
اب یہ بات معلوم ہے کہ پاکستانی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں یہ مسئلہ بہت پھیل رہا ہے۔ ایسے میں یہ ضروری ہے کہ والدین اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ بچوں کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ تشدد اور بے اعتنائی سے پرہیز کریں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ بچپن اور نوعمری میں بچے کے جنسی رجحانات اپنا ظہور کرتے ہیں۔ اس میں وہ مرد و زن کی تمیز نہیں کرتے۔ کہیں کوئی انحراف محسوس ہو تو یہ واضح کر دیں کہ محبت اور جنسی تعلق اصل میں ہمیشہ صنف مخالف کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ یہی فطرت ہے۔
ایسا کوئی انحراف سامنے آئے تو نفرت اور غصہ کے بجائے ہمدردی کے ساتھ مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ پختہ عمر کے عیش پرستوں کو چھوڑ کر نوعمر بچوں کے لیے یہ دراصل ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اس معاملے میں مذہب کی رہنمائی کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے۔ قرآن مجید نے چونکہ قوم لوط کے حوالے سے اس معاملے میں اللہ رب العزت کی منشا، مزاج اور مرضی کو پوری طرح واضح کیا ہے۔ اس لیے بچوں کو اس حوالے سے ایجوکیٹ کرنا چاہیے۔ یہ سب سے بڑھ کر والدین کی ذمہ داری ہے۔
بہرحال اس پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جنسی تعلق قطعاً ایک غیر فطری تعلق ہے۔ یہ تعلق اگر فروغ پائے گا تو سماج کی جڑ کاٹ کر رکھ دے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ہاں درست شعور کو عام کریں اور دین کی تعلیم صحیح پس منظر میں دیں۔