[اس طالب علم نے ترکی کے مشہور تاریخی ڈرامے ارطغرل پر چند ماہ قبل ایک تبصرہ لکھا تھا۔ یہ تبصرہ درحقیقت اس ڈرامے پر کم اور ہمارے ہاں رائج اس مقبول عام فکر پر زیادہ تھا جس کی بنا پر اس ڈرامے کو پوری مسلم دنیا میں غیر معمولی مقبولیت ملی۔ اس تبصرے میں ڈرامے کی فنی اور اخلاقی خوبیوں کا کھل کر اعتراف کیا گیا تھا مگر ساتھ میں اس مروجہ فکر پر کچھ تنقید بھی تھی جس کی کمزوریوں کی بنا پر پچھلے دو سو برس کی ہر طرح کی قربانیوں کے باوجود مسلمان آج تک ذلت و رسوائی کا شکار ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس تنقید کی تحسین کی، مگر کچھ لوگوں نے بہت برا بھی منایا۔ مگر لوگوں کی پسند و ناپسند سے بالاتر ہوکر وہ بات سامنے رکھنا ہی اصل قومی خدمت ہے جس سے ملت کی فلاح وابستہ ہو۔
آج کل پی ٹی وی پر یہ ڈرامہ اردو میں منتقل کرکے دکھایا جارہا ہے اور اب کروڑوں لوگ اس ڈرامے کو دیکھیں گے۔ اسی پس منظر میں یہ تبصرہ ایک دفعہ پھر شائع کیا جارہا ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ اندھی اور بے فائدہ جذباتیت میں دو صدیاں ضائع کرنے کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ ہماری نوجوان نسل تاریخ سے درست سبق حاصل کرنا سیکھے۔ کوئی سبق نہ بھی سیکھے تب بھی ذمہ داری تو ہر حال میں نبھائی جاتی ہے۔ابو یحییٰ]
تاریخ اور اسباقِ تاریخ
کہا جاتا ہے کہ تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں ان کی تاریخ کا کردار اس سے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ یہ ان کے لاشعور، قومی مزاج اور نفسیات کی صورت گری میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
تاہم اس طالب علم کے نزدیک کسی قوم کی تاریخ سے کہیں زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ اس کے دانشور اور اہل علم قوم کو تاریخ کس زاویے سے دکھاتے ہیں۔ وہ اوراق تاریخ سے کس طرح کے اسباق اخذ کرکے قوم کی نفسیات کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور ماضی کو حال سے کس طرح متعلق کرتے ہیں۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں اس طالب علم نے اپنی مصروفیات اور ذمہ داریوں سے وقت نکال کر ارطغرل نامی اس ڈرامے کو دیکھا جو ترکی کے سرکاری ٹی وی چینل ٹی آرٹی کی پیشکش ہے اور اس ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق اب تک 78سے زائد ممالک میں یہ ڈراما سیریز دیکھی جارہی ہے اور اس میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔
ہمارے ملک میں اس سیریز کا پہلا سیزن ایک پرائیوٹ چینل نے اردو ڈبنگ کے ساتھ پیش کیا تھا۔ جبکہ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے پی ٹی وی کو ہدایت کی ہے کہ اس ڈرامے کو اردو ڈبنگ کے ساتھ دکھایا جائے۔ تاہم اس وقت بھی یہ ڈراما سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر اردو سب ٹائٹل کے ساتھ دستیاب ہے۔
ارطغرل ڈرامے کی خصوصیات
تاریخ سے میری دلچسپی کی بنا پر میرے بڑے بھائی نے کئی برس قبل مجھ سے یہ اصرار کیا تھا کہ اس ڈرامے کو ضرور دیکھوں۔ مگر اس طرح کے ڈرامے اتنی زیادہ اقساط پر مشتمل ہوتے ہیں کہ ان کے دیکھنے کے لیے وقت نکالنا عملاً میرے جیسے شخص کے لیے ناممکن ہے۔ مگر اتفاق سے پچھلے دنوں کچھ وقت ملا تو اس ڈرامے کے تمام سیزن دیکھ لیے۔ یہی وہ وقت تھا جس میں وزیر اعظم کا اعلان سامنے آیا کہ اس ڈرامے کو سرکاری ٹی وی پر دکھایا جائے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ ہی عرصے میں عوامی سطح پر یہ ڈرامہ بڑی تعداد میں دیکھا جائے گا۔ چنانچہ یہ محسوس ہوا کہ اپنے نتائج فکر اس حوالے سے قارئین کے سامنے رکھوں جو اوپر بیان کیے ہیں کہ تاریخ سے زیادہ اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ تاریخ کو کس زاویے سے دکھایا جارہا ہے۔
ارطغرل ڈرامہ کمرشل پہلو سے ایک بہت کامیاب ڈرامہ ہے۔ اس طرح کے طویل ڈراموں میں ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں اس کا ایک طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ ایسی ٹی وی سیریز میں عریاں او ر فحش مناظر کی بھرمار کر دی جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں خواتین کے نیم عریاں لباس کو لازماً شامل کیا جائے۔ اس سے ناظرین کی ایک بڑی تعداد دلچسپی سے ایسی سیریز دیکھتی ہے۔
ارطغرل ڈرامہ چونکہ مذہبی پس منظر میں بنایا گیا اور یہ ترکی کی اسلام پسند حکومت کے سرکاری چینل پر نشر کیا جانا تھا، اس لیے اس میں نہ کوئی فحش منظر ہے اور نہ خواتین کے لباس میں کسی قسم کی عریانی کا کوئی پہلو شامل کیا گیا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک قابل تحسین چیزہے، مگر ظاہر ہے کہ ڈرامے کو ناظرین کے لیے پرکشش بنانا تھا۔ اس مقصد کے لیے ڈراموں کو مقبول بنانے کے دو مزید طریقے اختیار کیے گئے۔ پہلا یہ کہ ڈرامے میں جنگ و جدل کے مناظر کو کثرت سے دکھایا گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے ڈرامے کی کہانی میں غداروں، ان کی چالوں اور سازشوں سے نت نئے موڑ لاکر ڈرامے میں سنسنی کا عنصر برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ان دونوں چیزوں نے مل کر ڈرامے میں سسپنس اور تھرل جیسے عناصر کو جمع کر دیا ہے جو کسی بھی ڈرامے یا کہانی کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اداکاروں کی اداکاری، ہدایت کاری، موسیقی، لوکیشن، فلمبندی اور دیگر تکنیکی چیزیں بھی بہت اچھے معیار کی ہیں۔ ان سب چیزوں نے مل کر اس ڈرامے کو ایک معیاری اور مقبول ڈرامہ بنا دیا ہے۔
مگر ان سب چیزوں سے بڑھ کر اس ڈرامے کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں لوگوں کی کردار سازی پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ دینی اور اخلاقی تعلیمات کو مستقل ڈرامے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ خدا سے تعلق، دین سے محبت اور امت کے لیے دردمندی کے جذبات بارہا دکھائے گئے ہیں جو اعلیٰ روحانی اور اخلاقی اوصاف ہیں۔ ساتھ ہی دین اسلام کو انسانیت کی فلاح اور عدل و انصاف کے واحد راستے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ایک تاریخی حقیقت کی وضاحت
آگے بڑھنے سے قبل ایک تاریخی حقیقت کو واضح کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ارطغرل کے بارے میں جو تاریخی حقائق معلوم ہیں وہ بہت کم ہیں اور جو کچھ معلوم ہے وہ زیادہ تر افسانوی داستانیں ہیں۔ ان سب کو ملا کر جو تفصیل سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ارطغرل کا تعلق ان خانہ بدوش ترک قبائل میں سے ایک قبیلے قائی سے تھا جو تاتاریوں کی تباہ کاریوں سے گھبرا کر پناہ کی تلاش میں موجودہ شام اور ترکی کے علاقوں کی طرف آرہے تھے۔ راستے میں ارطغرل کو دو فوجوں میں جنگ ہوتی نظر آئی۔ اس نے اپنے چارسو کے لگ بھگ سپاہیوں سمیت کمزور گروہ کی مدد کی اور دوسرے گروہ کو شکست دے دی۔
یہ کمزور گروہ ترکی میں قائم رومی سلجوق حکومت کے سلطان علاء الدین کا لشکر تھا اور دوسرا طاقتور گروہ منگول حملہ آور تھے۔ چنانچہ سلطان نے خوش ہوکر اسے سغوت کا علاقہ بطور جاگیر دے دیا جو بازنطینی سلطنت سے متصل تھا۔ یہ علاقہ ایک مستقل جنگی محاذ تھا اور اس کے بعد اس کی باقی زندگی انھی لوگوں کے ساتھ جنگ و جدل کرکے اپنے علاقے کو وسعت دیتے ہوئے گزری۔اس پوری جدوجہد میں کوئی ایک آدھ ہی جنگ ہوگی جو تاریخ کے اوراق پر ریکارڈ ہوسکی۔ ورنہ ارطغرل کی زندگی کے بیشتر واقعات پر تاریخی طور پر پردہ پڑا ہوا ہے۔
ظاہر ہے کہ اتنی مجمل معلومات کے ساتھ جو ڈراما بنایا گیا ہے اس کا واقعاتی تفصیل کے لحاظ سے بیشتر حصہ فکشن پر مشتمل ہونا ناگزیر تھا۔ خود اس ڈرامے کے آغاز پر ہر قسط میں ترکی زبان میں یہ بات واضح کر دی جاتی ہے کہ اس ڈرامے میں بیان کردہ تمام حکایات و واقعات اور کردارتاریخ سے متاثر ہوکر تخلیق کیے گئے ہیں۔ چنانچہ جو ڈرامہ دراصل دکھایا جارہا ہے وہ اپنی تفصیل میں ایک فکشن ہی ہے۔ بلکہ بعض جگہ تو اس میں تاریخ ہی غلط بیان کر دی گئی ہے۔ مثلا تیسرے سیزن میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ارطغرل کی مسیحیوں سے ایک جنگ کے موقع پرسلطان علاء الدین نے اس کے گروہ کی مدد کرکے انھیں شکست سے بچا کر مسیحیوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ جبکہ تاریخی طور معاملہ اس کے برعکس ہوا تھا۔ یہ ارطغرل تھا جس نے ایک مشکل موقع پر سلطان کی مدد کرکے دشمنوں کو شکست دی تھی۔ تاریخ دان اس پر تو اختلاف کرتے ہیں کہ وہ گروہ منگول تھا یا مسیحی مگر اس پر اختلاف نہیں کہ مدد ارطغرل نے کی تھی اور اسی کے صلے میں اسے سغوت کی جاگیر دی گئی تھی۔
تاہم اس تفصیل کے بیان کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ یہ ڈراما ارطغرل کی حقیقی زندگی سے زیادہ اس بات کا بیان ہے کہ اس وقت اسے پیش کرنے والے تاریخ کو کس طرح بیان کرنا چاہ رہے ہیں۔اور یہ کہ وہ تاریخ سے کس طرح کے اسباق اخذ کرکے لوگوں کی ذہن سازی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ذہن چونکہ معاصر مسلمانوں کا ذہن ہے اس لیے بدقسمتی سے اس میں وہ ساری کمزوریاں موجود ہیں جن کی بنا پر مسلمان دور حاضر میں اپنے زوال مسلسل سے نہیں نکل پا رہے۔
اس پس منظر میں یہ طالب علم ڈرامے کے انھی پہلوؤں کا تجزیہ کرے گا۔ ہوسکتا ہے کہ بعض طبیعتوں پر یہ تجزیہ گراں گزرے، مگر ایسے احباب سے بزبان اقبال یہی درخواست کی جاسکتی ہے۔
چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
ہیرو پرستی کے بجائے افراد کی تربیت اور افکار کی تطہیر
اس ڈرامے کا مرکزی خیال عصر حاضر کے مسلمانوں کا ایک پسندیدہ تصور ہے۔ یعنی مسلمانوں کے لیے اندرونی خلفشار، بیرونی خطرات، مسلسل زوال اور شکستوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ایک عظیم لیڈر آئے جو آکر سب کچھ ٹھیک کر دے۔ ارطغرل کو ڈرامے میں اسی حیثیت میں پیش کیا گیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایک عظیم لیڈر کے ہاتھوں سب کچھ ٹھیک ہوجانے والی یہ بات تو زمانہ قدیم میں بھی مکمل طور پر درست نہ تھی، مگر زمانہ قدیم کے دور بادشاہت میں اس بات میں جو تھوڑی بہت سچائی تھی وہ بھی اب دم توڑ چکی ہے۔
یہ زمانہ سماجی طاقت کا زمانہ ہے۔ یہ سماجی طاقت اس وقت جنم لیتی ہے جب معاشرے میں اور خاص طور پر اس کی مڈل کلاس اور اشرافیہ میں تربیت یافتہ افراد قابل قدر تعداد میں موجود ہوں۔ وہ اخلاقی طور پر حساس ہوں۔ وہ تعصبات سے بالاتر مختلف آراء سننے، اس پر غور کرنے اور اپنے افکار کی تطہیر کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔ کوئی فرد واحد قوموں کی تقدیر نہیں بدلتا نہ بدل سکتا ہے۔کوئی بڑا لیڈر کبھی سامنے آتا بھی ہے تو اس کے پیچھے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو خاموشی سے قوم کی تربیت اور اس کے ساتھ تعاون کا فریضہ سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔
ترکی کی مثال
ترکی ہی کو لے لیں جہاں ہمیں اردگان کی شکل میں بظاہر ایک ایسا سیاسی لیڈر نظر آتا ہے۔ مگر کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ اردگان سے پہلے ایک پوری فکری جدوجہد ہے جو کم و بیش ایک صدی تک کی گئی ہے اور اسی جدوجہد نے کمال اتاترک کی مذہب مخالف سوچ کے باوجود ترکی کے لوگوں میں دینی روح اور اسلامی اخلاق کو زندہ رکھا۔ بدیع الزماں سعید نورسی (1871-1960) اور فتح اللہ گولان (پیدائش1941) جیسے مصلحین اور ان کی تحریکوں نے عشروں تک کمال اتاترک کے اسلام مخالف جبرکے باوجود ترکی قوم کو اسلام سے نہ صرف دور نہیں ہونے دیا بلکہ ان کی کردار سازی کرتے رہے۔ گرچہ گولان کا طیب اردگان سے بعد ازاں سخت اختلاف سامنے آیا مگر اس سے قطع نظر ان اصلاحی تحریکوں نے عوام میں وہ روح پھونک دی جس نے ایک اچھی قیادت کو کام کرنے کے لیے مواقع، مددگار ٹیم اور معاشرے میں اپنے حمایتی فراہم کیے بلکہ مجموعی طور پر معاشرے کی اخلاقی روح کو زندہ رکھا۔ اس لیے یہ صرف کہانیوں کی باتیں ہیں کہ معاشرہ تو جھوٹ، منافقت، بددیانتی پر کھڑا ہو اور ایک لیڈر آکر قوم کی قسمت بدل دے۔ حقیقت کی دنیا میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
پھر مزید یہ کہ یہ دور بادشاہت کا نہیں جس میں ایک سردار اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کرلے اور پھر معاشرے کو اپنے رنگ میں رنگ دے۔ آج کے دور میں کوئی غاصبانہ طریقے سے آئے یا جمہوری طریقے سے آئے، اس کے ساتھ سماج نہیں تو اسے بدترین سمجھوتے کرنے پڑیں گے۔ ہم نے یہ سب اپنی آنکھوں سے اپنے ملک میں ہوتے دیکھا ہے۔ پہلے ضیاء الحق کو دیکھا جن پر ذاتی حیثیت میں مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا، مگر اپنے غیر جمہوری اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے انھوں نے ملک کو کرپشن کے جہنم میں دھکیل دیا۔ جمہوری مثال ہمارے موجودہ وزیر اعظم کی ہے جن کا پورا اقتدار سمجھوتوں اور یوٹرن سے عبارت ہے۔
مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ وہ سماج کو بہتر بنانے، علم کی تجدید کرنے، افکار کی تطہیر کرنے، لوگوں کی اخلاقی تربیت کرنے اور ان میں ایمان کی روح پھونکنے کے بجائے کسی لیڈر کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
اس پر مستزاد یہ ہے کہ اس ڈرامے میں مافوق الفطرت طاقت کے حامل بزرگوں کا مرکزی کردار کے ساتھ ہونا ہے۔ ابن عربی کا کردار اس ڈرامے میں جس طرح دکھایا گیا ہے اس کی کوئی مستند تاریخی اساس نہیں ہے۔ مگراس سے بڑھ کر اس ڈرامے میں ایک اخلاقی مربی اور طبیب کامل کے علاوہ ان کا کردار بھی یہی ہے کہ وہ روحانی قوتوں کو استعمال کرکے اس عظیم لیڈر کی مدد کریں۔اس طرح کی چیزوں پر اقبال کا یہ مرثیہ ہی پڑھا جاسکتا ہے۔
رہا نہ حلقہ صوفی میں سوزِ مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں قرآن مجید ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ عزت و ذلت اور بادشاہی لینا اور دینا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے فیصلے اس کے فرشتے نافذ کرتے ہیں نہ کہ کچھ بزرگ۔ انسان کوئی بھی ہوں وہ تو خود حالت امتحان میں ہیں۔ رہے اس کے فیصلے تو وہ اپنے فیصلے اپنے اصولوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔ ان میں سب سے بنیادی اصول یہ ہے کہ قوم اپنی اصلاح اور بہتری کا کتنا جذبہ رکھتی ہے۔ علم و اخلاق وہ قوم کس جگہ کھڑی ہے۔ اخلاقی رویہ پست ہے تو وقتی طور پر کسی طرح آپ کو اقتدار مل بھی جائے تو وہ چھین لیا جاتا ہے، اور اگر قوم کا اخلاقی رویہ اعلیٰ ہے تو دنیا کی امامت اور رہنمائی اس قوم کو دے دی جاتی ہے۔
بہرحال اس نکتے کا خلاصہ یہ ہے کہ قومیں تنہا کسی لیڈر کے آنے سے عظمت و ترقی کی منازل طے نہیں کرتیں۔ عصر حاضر میں یہ سماج ہوتا ہے جس کی مجموعی قوت قوم کی تقدیر بدلتی ہے۔ اس لیے کرنے کا اصل کام سماج کی اخلاقی تربیت اور فکری تطہیر ہے۔ ہم عظیم لیڈر کا انتظار کرتے رہے تو مایوسی اور دھوکوں کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
جنگ کا میدان اب علم کا میدان ہے
اس ڈرامے کی تھیم کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ڈرامہ دیکھنے والوں کو اس رومانوی دنیا کا اسیر بنا دیتا ہے جہاں کچھ بہادر تلوار ہاتھ میں لیے کفار کو کاٹتے ہوئے دشمنوں کو شکست دیتے ہیں اور مسلمانوں کی فتح کا عَلم بلند کر دیتے ہیں۔ ڈرامے میں ضمنی طور پر کہیں کہیں علم کی اہمیت پر بھی بات کی گئی ہے، مگر اس کی غالب تھیم جو اتنے تواتر سے دکھائی گئی ہے کہ ممکن نہیں کہ ناظر کے ذہن میں نہ بیٹھے وہ یہی ہے کہ کچھ بہادر ہیں جن میں سے ہر ایک ہزار دشمن کو اپنی تلوار سے فنا کرکے اسلام کا علم بلند کر دیتا ہے۔ ہمارا بچپن نسیم حجازی کے ناول پڑھ پڑھ کر اسی رومانوی دنیا میں گزرا تھا۔ مگر بڑے ہوئے تو مطالعے نے یہ تلخ حقیقت سامنے رکھ دی کہ یہ رومانوی دنیا اب بالکل غیر متعلق ہوچکی ہے۔ پچھلی دو صدیوں میں ہم نے ارطغرل جیسا ہزاروں بہادر پیدا کیے، مگر علم و اخلاق میں قوم کی مجموعی پستی کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ وہ سب مسلمانوں کے غلبے کا خواب لیے میدان میں اترے اور خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوگئے۔
افسوس یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اسٹیم انجن کو ایجاد ہوئے اب ڈھائی سوبرس سے زیادہ وقت گزر چکا ہے جب انسانی طاقت کی جگہ عِلم کی طاقت نے لے لی تھی۔ بدقسمتی سے اس واقعے کی خبر مسلمانوں کو آج کے دن تک نہیں ہوسکی ہے۔ یا درست الفاظ میں مسلمانوں کے دانشور اور فکری قیادت مسلمانوں کو یہ حقیقت تسلیم ہی نہیں کرنے دیتے۔ وہ ابھی بھی مسلمانوں کو اُسی دنیا میں زندہ رکھے ہوئے ہیں جہاں کچھ بہادر سر ہتھیلی پر لیے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار اسلام کی جنگ لڑتے تھے۔
کاش کوئی میری قوم کو بتائے کہ جنگ تو ابھی بھی جاری ہے، مگر میدان جنگ بدل چکا ہے۔ اب یہ علم کا میدان، ٹیکنالوجی کی دنیا اور ایجادات کی دوڑ ہے جہاں قوموں کی فتح و شکست کا حقیقی فیصلہ ہوتا ہے۔ اب دنیا تلوار سے علم کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ اب علم کی طاقت ہی فوجی طاقت بنتی ہے۔ علم کی طاقت ہی معاشی طاقت بنتی ہے۔ علم کی طاقت ہی وہ ٹیکنالوجی دیتی ہے جو ایک قوم کو دوسری قوم سے آگے بڑھاتی ہے۔ علم کی طاقت ہی وہ ایجادات کرتی ہے جو ایک قوم کو دوسرے سے زیادہ ترقی کی راہ پر ڈالتی ہے۔ کاش مزید شکستوں، ذلتوں اور رسوائیوں سے پہلے ہماری قوم اس حقیقت کو سمجھ لے۔
اگر کسی کو ہماری بات سے اختلاف ہے تو صرف یہ دیکھ لے کہ ہماری تعلیمی بجٹ کتنا ہے؟ ہم نے سائنس میں کتنے نوبل پرائز جیتے ہیں؟ ہماری جامعات سائنسی تحقیق میں دنیا میں کس معیار پر ہیں؟ ایسے تمام معیارات پر اگر دو ارب مسلمانوں پر مشتمل پورا عالم اسلام مل کر بھی کسی ایک ترقی یافتہ مغربی ملک کا مقابلہ کرلے تو یہ بہت بڑی خبر ہوگی۔
سازشیں اور غداریاں
اس ڈرامے کی تھیم کا تیسرا کمزور پہلو یہ ہے کہ اس میں اس قدر سازشیں اور غداریاں دکھائی گئی ہیں کہ دیکھنے والے کے ذہن میں یہ بات رچ بس جاتی ہے کہ اس دنیا میں ہر جگہ ہمارے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ دوسری قوموں میں کوئی خوبی نہیں بلکہ ان کا کل سرمایہ سازشیں کرنا ہے۔ جبکہ ہماری اصل کمزوری یہی ہے کہ ہمارے درمیان غدار موجود ہیں۔ ورنہ ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
یہ ایک انتہائی غیر حقیقی انداز فکر ہے جو بدقسمتی سے مسلمانوں میں بہت عام ہے۔ اس ڈرامے کو دیکھنے والے میں یہ اندازِ فکر بہت زیادہ بڑھے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی دنیا میں معاملہ مختلف ہے۔ یہاں پر جس قوم میں اخلاقی حس زندہ ہو، میرٹ کا چلن عام ہو، عدل و انصاف قائم ہو،علم و فن میں وہ قوم آگے ہو ان کے خلاف نہ غداری کرنا آسان ہوتا ہے نہ سازشیں موثر ہوتی ہیں۔ غداری اور سازش صرف کمزوروں کے خلاف موثر ہوتی ہے۔ اخلاقی طور پر طاقت ور لوگ ہر سازش کے باوجود اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔
اسی طرح یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ دوسری اقوام صرف سازشیں نہیں کر رہی ہوتیں۔ ان کے اندر بھی بہت سی اعلیٰ خصوصیات ہوتی ہیں اور باصلاحیت افراد ہوتے ہیں۔ جب دو قوموں کا مقابلہ ہوتا ہے تو اصل میں مقابلہ اس چیز کا نہیں ہوتا کہ کون دوسرے کے خلاف زیادہ کامیاب سازش کرتا ہے۔ بلکہ اصل مقابلہ اس پہلو سے ہوتا ہے کہ کون دوسرے کے مقابلے میں زیادہ باصلاحیت اور کہاں عدل، انصاف اور میرٹ کا چلن عام ہے۔ جو قوم ان چیزوں میں پیچھے ہوگی اس کے خلاف کی گئی ہر سازش رنگ لائے گی ورنہ ناکام ہوجائے گی۔
خلاصہ
ارطغرل ڈرامے کے یہ وہ تین پہلو ہیں جو لاشعوری طور پر دیکھنے والوں کے دل و دماغ کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ مگر یہی وہ تین پہلو ہیں جنھوں نے پچھلے دو سو برسوں میں مسلمانوں کے زوال کو ختم نہیں ہونے دیا۔ یعنی وہ سماج کو طاقتور بنانے کے بجائے کسی عظیم لیڈر کی آمد کے منتظر ہیں جو کچھ بزرگوں کی مدد سے مسلمانوں کی تمام تر اخلاقی پستی کے باوجود ان کو دنیا میں غالب کر دے گا۔ دوسرا یہ کہ مسلمان ابھی تک ذہنی طور پر جنگ کے اس میدان میں زندہ ہیں جہاں جسمانی طاقت فیصلہ کن ہوتی ہے جبکہ دنیا آگے بڑھ کر علم و ٹیکنالوجی کے اس سنگ میل کو عبور کرچکی ہے جس میں مہارت کے بغیر غلبہ و کامیابی دیوانے کا خواب ہے۔ تیسرا یہ کہ مسلمان اپنی تمام تر کمزوریوں کو بھول کر کچھ غداروں اور بیرونی سازشوں کو اپنی پستی و شکست خوردگی کا سبب سمجھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان جب تک ان تین چیزوں کو ٹھیک نہیں کرتے تب تک عروج و اقتدار کی منزل سے بہت دور رہیں گے۔ جو لوگ ارطغرل ڈرامہ دیکھنا چاہیں، وہ ضرور دیکھیں۔ اس ڈرامے کو انجوائے کرنا چاہیں تو ضرور کریں۔ اپنی تاریخ اور ماضی پر فخر کرنا چاہیں تو یہ بھی ضرور کریں۔ مگر مہربانی کرکے اس کو حال سے متعلق نہ کریں۔ ورنہ دو صدیوں سے شکستوں کا جو سلسلہ جاری ہے وہ اس صدی میں بھی جاری رہے گا۔ ہوسکے تو اس طالب علم کے بیان کردہ یہ نکات ضرورذہن نشین کرلیں۔ انھی میں ہمارے عروج کا راستہ پوشیدہ ہے۔
جہاں رہیں بندگان خدا کے لیے باعث رحمت بنیے، باعث آزار نہ بنیے۔
———————–
ارطغرل ڈرامہ اور ابو یحییٰ – ایک وضاحت
سوال۔ ارطغرل غازی ڈرامے پر آرٹیکل میں آپ نے خود کہا ہے کہ اس ڈرامے میں دین، ایمان اور اِخلاق کی تعلیم دی گئی ہے اور اس ڈرامے میں فحاشی بھی نہیں ہے اور نہ عورتوں کو عریاں لباس میں دکھایا گیا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستانی ڈراموں میں بے حد فحاشی اور بےہودہ ڈائیلاگ کی بھرمار ہوتی ہے۔ ڈرامہ تو چھوڑو نیوز چینل بھی لگاؤ ایسے واحیات ایڈ آتے ہیں کہ نیوز چینل بھی دیکھنے کا دل نہیں کرتا۔
پھر کیا وجہ ہے کہ آپ صرف اس ڈرامہ کو لے کر اتنا لکھ رہے ہیں؟ اور آپکی کوشش بتا رہی ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ آج کی نسل پُرانی روایات دیکھیں اور سیکھیں۔ آپ نے کبھی پاکستانی ڈراموں پہ اتنا کیوں نہیں لکھا؟ فضہ بریرو
جواب: السلام علیکم
ارطغرل ڈرامے کے حوالے سے میری سائٹ اور فیس بک پر جو مضمون شائع ہوا ہے وہ ان الفاظ پر ختم ہوتا ہے:
”جو لوگ ارطغرل ڈرامہ دیکھنا چاہیں، وہ ضرور دیکھیں۔ اس ڈرامے کو انجوائے کرنا چاہیں تو ضرور کریں۔ اپنی تاریخ اور ماضی پر فخر کرنا چاہیں تو یہ بھی ضرور کریں۔ مگر مہربانی کرکے اس کو حال سے متعلق نہ کریں۔ ورنہ دو صدیوں سے شکستوں کا جو سلسلہ جاری ہے وہ اس صدی میں بھی جاری رہے گا۔ ہوسکے تو اس طالب علم کے بیان کردہ یہ نکات ضرور ذہن نشین کرلیں۔ انھی میں ہمارے عروج کا راستہ پوشیدہ ہے۔“
میرے ان الفاظ کے بعد آپ اپنے سوال پر غور کیجیے کہ کیا یہ سوال کسی حقیقت پر مبنی ہے یا محض آپ کا تاثر ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ میرے پورے مضمون میں ایک جملہ بھی نہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ مصنف کی کوشش ہے کہ لوگ ڈراما نہ دیکھیں۔ میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ کبھی کسی کتاب، ڈرامے، عالم، کسی فرد یا گروہ کے خلاف لکھ کر لوگوں کواس سے متنفر کرنے کی کوشش کروں۔ میرے نزدیک یہ ایک انتہائی پست اور گھٹیا حرکت ہے جس کے ارتکاب کا تصور کوئی صالح انسان نہیں کرسکتا۔
جو کام دین کے ایک طالب علم اور ملت کے ایک خیرخواہ کے طور پر میں کرتا ہوں وہ یہ کہ کسی فکر یا نقطہ نظر یا رویے کی غلطی کو واضح کر دیا جائے۔ ارطغرل ڈرامے پر لکھنے کی وجہ بھی ڈرامے پر تبصرہ کرنا نہیں تھا نہ یہ میرا کام ہے کہ ڈراموں پر تبصرہ کروں۔ میرا اصل مقصد مسلمانوں میں پھیلے ہوئے ان غلط تصورات پر تبصرہ کرنا تھا جس کی بنا پر پچھلی دو صدیوں میں مسلمان برباد ہورہے ہیں اور اس بربادی کی آخری قسط تو ابھی بھی جاری ہے۔
یہ تصورات کیا ہیں ان کا خلاصہ بھی سن لیں۔ پہلا یہ کہ ایک عظیم لیڈر آئے گا اور وہ سب ٹھیک کر دے گا۔ میں نے توجہ دلائی ہے کہ عظیم لیڈر کے انتظار کے بجائے ہمیں افراد کی تربیت کرکے معاشرے کو مجموعی طور پر بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوسرا تصور یہ کہ مسلمان اس لیے تباہ ہوئے کہ انھوں نے تلوار کو ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ میں نے یہ واضح کیا ہے کہ دور حاضر میں مسلمانوں کی شکست کا سبب یہ نہیں کہ انھوں نے تلوار کو چھوڑ دیا بلکہ یہ ہے کہ وہ تعلیم اور علم میں دنیا میں سب سے پیچھے ہیں۔ تیسرا تصور یہ ہے کہ ہم اس لیے تباہ حال ہیں کہ ہمارے خلاف ہروقت سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔ میں نے توجہ دلائی ہے کہ دوسری قومیں اپنی سازشوں سے نہیں بلکہ علم و اخلاق میں اپنی خوبیوں کی بنا پر ہم سے آگے بڑھی ہیں اور ہم خود میں یہ خوبیاں پیدا کرنے کے بجائے سازشوں کا رونا روتے رہتے ہیں۔
ایک اور چیز جس کی طرف اپنی یوٹیوب وڈیو میں توجہ دلائی یہ حقیقت تھی کہ ہم ایمان و اخلاق میں اپنی کوتاہیوں کی بنا پر اس وقت حالت سزا میں ہیں۔ اس وقت کرنے کا اصل کام اپنی اصلاح اور بحیثیت مسلمان ایمان، اخلاق اور دعوت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ اس کے بغیر ہماری ہر کوشش ملیا میٹ ہوکر رہے گی اور دوسو برس سے مسلسل ہورہی ہے۔
مسلمانوں کی اکثریت چونکہ ان معاملات میں اپنی اصلاح پر تیار نہیں، اس لیے ان پر متنبہ کرنا میرا دینی اور ملی فریضہ تھا۔ الحمدللہ بیشتر لوگوں نے بات سنی اور سمجھی۔ یہ روشنی ان شاء اللہ ایسے ہی آگے بڑھے گی۔ البتہ بہت سے لوگوں نے بہت کچھ برا بھلا بھی کہا۔ مگر اس راہ میں سب و شتم جھیلنا اور برا بھلا سننا ان انبیا کی سنت ہے جن کے پاؤں کی خاک برابر بھی ہم نہیں ہوسکتے۔ اس راہ میں جو ہفوات سننی پڑتی ہیں، اس کے بدلے میں ان اعلیٰ ترین شخصیات کے قدموں میں جگہ مل جائے تو یہ برا سودا نہیں ہے۔ علم و اخلاق سے عاری یہ لوگ اپنا کام کرتے رہیں۔ ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ اللہ رب العالمین خود فیصلہ کردیں گے کہ کون ان کے نبیوں کے طریقے پر تھا اور کون قوم پرستی، فرقہ واریت خواہش پرستی کے راستے پر تھا۔
بندہ عاجز
ابو یحییٰ
۱ ۔ ارطغرل غازی
https://youtu.be/Jd7sj73LA14
اس آرٹیکل کے حوالے سے یوٹیوب ویڈیو اوپر دیئے گئے لنک پر دستیاب ہے