میں کیا کروں؟ ۔ ابویحییٰ
’’اپنی قوم کے مایوس کن حالات دیکھ کر میرا حوصلہ پست ہوجاتا ہے۔ سیاسی انتشار، بدامنی، مہنگائی، بے روزگاری، ہر دوسرے گھر میں بیٹھی بن بیاہی بہن بیٹیاں، ہر دوسرے ہفتے ہونے والے خود کش حملے، یہ سب میرا حوصلہ پست کر دیتے ہیں۔ اب تو جینے کا دل نہیں چاہتا، مجھے بتائیں میں کیا کروں؟‘‘
ان کے سوال کا جواب دینے کے بجائے میں نے انہیں پیشکش کی کہ وہ میرے ساتھ چہل قدمی پر چلیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم دونوں پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ پارک میں ہر طرف خدا کی دنیا بکھری ہوئی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہمارے بدن کو چھو کر گزرتے تو لگتا کہ فطرت اپنی خاموش آواز میں کوئی نغمہ چھیڑے ہوئے ہے۔ جگہ جگہ لگے رنگ برنگے پھول فطرت کی اس محفل میں روح تک اتر جانے والی کسی غزل کے اشعار کی مانند لگتے تھے۔ بادلوں کی اوٹ لیے سورج کی سنہری کرنیں شام کے افق پر سونے کی مانند بکھری ہوئی تھیں۔ نیلگوں آسمان کے پس منظر میں سرسبز اور سربلند درخت اپنے جمال و کمال کی گواہی آپ دے رہے تھے۔ گہری ہوتی ہوئی شام میں ہوا کے شانوں پر سوار پرندے اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے محو پرواز تھے۔
میں چلتے چلتے رکا اور ان کی طرف رخ کر کے کہنے لگا۔ آپ نے پوچھا تھا کہ آپ کیا کریں؟ آپ خدا کی دنیا میں جینا سیکھ لیں۔ پھر میں ان کا ہاتھ پکڑ کر ایک ایسے پودے کی طرف لے گیا جس کی نرم و نازک کونپلیں ابھی سر اٹھا رہی تھیں۔ میں گویا ہوا: یہ ننھا پودا کبھی ایک بیج تھا جسے زمین میں دفنا دیا گیا تھا۔ مگر خدا کی دنیا میں ہر مشکل کے بعد آسانی ہوتی ہے۔ اس لیے یہ بیج اپنی قبر سے نکل کر پودا بنا اور جلد ایک سربلند درخت بنے گا۔ خدا کی دنیا میں بدترین حالات کے بعد بہتری آتی ہے۔ آپ کی قوم مسائل کے بطن سے اپنا نیا وجود اگلنے کو تیار ہے۔ یہ پریشانیاں دردزہ کی سختیاں ہیں۔ آپ جلد دیکھیں گے کہ ان اندھیروں کے بعد نیا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ میں خاموش ہوگیا، مگر ان کے چہرے پر امید کی چمک پیدا ہوچکی تھی۔ میرا ہاتھ تھامے وہ دوبارہ چلنے کے لیے تیار ہوگئے۔