ایک اچھی ساس کے کچھ اجزائے ترکیبی حصہ (ج) ۔ فرح رضوان
۱ ۔ ایک اچھی ساس کے کچھ اجزائے ترکیب (حصہ ا)
۲ ۔ ایک اچھی ساس کے کچھ اجزائے ترکیب (حصہ ب)
۳ ۔ ایک اچھی ساس کے کچھ اجزائے ترکیب (حصہ ج)
دیکھیں! اب بات پہلے جیسی نہیں رہی، کل تک آپ جس سلطنت کی تنہا مالک تھیں، اب اس میں مداخلت ہوچکی ہے اور دوسرے بیٹوں کی شادی کے ساتھ ہی اس اقتدار میں دوسروں کی حصہ داری بڑھتی چلی جائے گی۔ سوچیے، کیا آپ میں حب جاہ یا لیڈرشپ کی تمنا ہے یا کسی احسان کے بدلے شکریہ سننے کی طلب۔ ۔ ۔ ؟ یقینا ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اب آپ کو کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ دراصل اب آپ کی اقدار اور کردار بہو کو منتقل ہوگا گرچہ اس سے آپ کی اہمیت میں کمی بالکل نہ ہوگی۔
جس طرح موسم بدلنے پر شاخوں سے زرد پتے ٹوٹ کر بظاہر نئے سرسبز و شاداب پتوں کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں لیکن درحقیقت وہ کھاد میں بدل کر درخت کی زرخیزی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح اب آپ کی زندگی کے تجربات سے دوسروں کی زندگی سہل بنانے کا وقت ہے۔ لیکن آپ کو نہایت حکمت سے کام لے کر اس طرح باتوں باتوں میں سکھانا ہوگا کہ سامنے والے کو احساس کمتری نہ ہو، نہ ہی وہ اسے ڈکٹیشن سمجھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ نے کبھی کسی پر احسان نہیں جتانا، خواہ وہ اپنی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ یہ نہایت برا عمل ہے جو خود آپ کے اپنے حق میں نقصان دہ ثابت ہوگا۔
ہمارے ہاں کی خواتین عموماً بہو کے آتے ہی آرام کرنے اور اس سے خدمت کروانے کو ترجیح دینے لگتی ہیں، نتیجتاً بہت جلد خود کو بوڑھا محسوس کرتی ہیں اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تھکن، جھلاہٹ، مایوسی و دیگر نفسیاتی و اخلاقی بیماریوں کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اگر بہو سے خدمت کروانے کے بجائے آپ اپنے کارآمد ہاتھ پاؤں، دیگر اعضا اور حواس کا استعمال کریں اور اس پر ہر دم رب کا شکر ادا کریں تو آپ کو کبھی اس قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کبھی یہ مت سوچیں کہ کوئی دوسرا آپ کی جگہ لے رہا ہے یا آپ سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ہر تالے کی چابی ہاتھ میں رکھنے کا اصل گُر یہی ماسٹر کی ہے کہ بدگمانی سے ہر صورت بچا جائے۔
یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ آخر ہم ہی ایسا کیوں کریں؟ سب اچھا رکھنے کی ذمہ داری صرف ہم پر ہی کیوں عائد ہو؟ تو بات دراصل یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی عمل پر ہمارا کوئی بھی ردعمل اگر مسلسل برا ہے یا ہم صرف اچھا عمل کرنا ہی روک دیتے ہیں تو اس سے کسی دوسرے سے زیادہ ہم خود کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ قبر کی تنہائی میں یہی برے اعمال انتہائی بدشکل آدمی کی صورت میں سامنے آئیں گے، جبکہ اچھے اعمال خوبصورت شخص کی صورت خوشخبری کی نوید سنائیں گے۔
جیسا کہ قرآن پاک میں اکثر مقامات پر جاری رہنے والی نہروں کا ذکر آیا ہے، تو یہ نہریں صرف ان لوگوں کا مقدر ہوں گی جو صالحین ہوں گے، جنہوں نے تاحیات خوف و رجأ کا دامن تھامے رکھا، اپنی اصلاح کا عمل جاری رکھا، اخلاص کے ساتھ نیک عمل کرتے رہے، صبر جمیل پر قائم رہے اور اپنے رب کی رضا کی خاطر برائی کا جواب بھلائی سے دیتے رہے۔