ایک اچھی ساس کے کچھ اجزائے ترکیب (حصہ ب) ۔ فرح رضوان
۱ ۔ ایک اچھی ساس کے کچھ اجزائے ترکیب (حصہ ا)
۲ ۔ ایک اچھی ساس کے کچھ اجزائے ترکیب (حصہ ب)
۳ ۔ ایک اچھی ساس کے کچھ اجزائے ترکیب (حصہ ج)
معاملہ اگر یوں ہے کہ بہو یا داماد کی حرکتوں سے آپ کا خون جل رہا ہے اور بات فقط اتنی ہے کہ آپ کے گھر کے رسم و رواج اور قواعد نہیں مانے جا رہے، تب تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، اسے خود بھی اہمیت نہ دیں سب خوش رہیں گے آپ سمیت۔ لیکن معاملہ اگر یہ ہے کہ دین کی حدود کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تب بھی براہ راست اور فوری غصہ یا ناراضی کام بگاڑ سکتی ہے۔ غصہ ویسے عموماً شیطان ہی لے کر آتا ہے۔ کبھی یہ مذہبی حمیت کے بھیس میں ہوتا ہے اور کبھی آپ کی بڑھتی عمر کے ساتھ جسمانی اور نفسیاتی تکالیف کے سبب اور کبھی ہارمونز کے لبادے میں۔
اگر آپ ٹھنڈے دل اور میٹھی زبان سے کام لیں اور بچپن کا سیکھا ہوا سبق پہلے تولو پھر بولو یاد رکھیں تو ان شاء اللہ شر پسند ہارمونز دم دبا کر بھاگتے بنیں گے۔ اس پریکٹس کے لیے دنیا کی کوئی بھی بات مددگار ثابت نہیں ہوسکتی۔ سوائے اس کے کہ اچھے لیکچرز، دوستوں اور کتابوں کے ذریعے سے بار بار اللہ کی رضا اور دنیا و آخرت میں اپنی بقا کے بارے میں ترغیب ملتی رہے۔ مکمل یقین رکھیں کہ حکمت، تحمل، دعا اور نرمی سے ان شاء اللہ بات بن جائے گی۔
خاندان میں بہو اور داماد کی شکل میں آنے والے بچوں سے بانڈنگ بنانا بہت ضروری ہے جس میں آپ کا کردار گیلے نرم سے سیمنٹ جیسا ہونا چاہیے جو پختہ اینٹوں کو یکجا کر کے گھر کی فصیل تیار کرتا ہے۔ لیکن اس کے لیے کچھ اصول گرہ میں باندھ لیں کہ کبھی بھی اس قرب کی بنیاد درج ذیل چیزوں پر نہیں رکھنی:
یہ کہ آپ غیبت نہ کریں۔ اس کے گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے برا ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ پھر آپ خود ہی اپنے ملنے والے لوگوں میں چسکیاں لے لے کر صرف ان کے عیب ہی تلاش کرنے اور کڑھنے کا بیج بوئیں گی۔ پھر اس سے پھوٹنے والی شاخیں کارآمد ہوں گی نہ اس کے پھل ہی آپ کو میٹھے ملیں گے۔
یہ کہ سب مل کر فضول ٹی وی شوز نہ دیکھیں۔ اکثر لغو ہونے کے علاوہ یہ کام، وقت اور اپنی ذاتی سوچ کا ردی کر ڈالنا ہوتا ہے۔ مزید براں یہ کہ نہ جانے کب آپ سب میں سین کری ایٹنگ (scene creating) کا وائرس منتقل ہو جائے گا اور اس سے کہیں زیادہ تماشے اور ڈرامے خود آپ کے گھر میں وقوع پذیر ہو نے لگیں جن کو آج آپ تفریح کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہ کہ بچوں کو نہ تو اپنی جبری عزت کرنے اور نہ آپس ہی میں ایک دوسرے سے محبت پر مجبور کریں۔ عزت کا مالک رب العزت ہے۔ آپ اس کے احکام پر عمل کریں ان شاء اللہ بدلے میں آپ کو آپ کی سوچ سے بڑھ کرعزت ملے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ کسی کا بھی دل بدلنے پر قادر نہیں، صرف اللہ تعالیٰ مقلب القلوب ہے۔ بچوں کی آپس میں محبت کی ترغیب کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کریں۔ احسن طریقہ وہی آپ سب کے دل وعمل میں ڈال دے گا۔ آپ کو زبردستی نہیں کرنا پڑے گی کہ فلاں بہن کی یوں مدد کرو فلاں بھائی سے یوں ملو وغیرہ۔
یہ کہ آپ کبھی کسی بھی بچے میں فرق نہ کریں۔ نیز کبھی کسی کا تقابل کسی اور سے نہ کریں۔ لڑکوں کو بھی بچپن ہی سے گھریلو کام کاج کی عادت ضرور ڈالیے۔ اپنے اطراف میں ان سب لوگوں کی سرزنش کیجیے جو مرد کو گھر کے کام کاج میں بیوی کی مدد سے روکتے ہوں۔ الحمد للہ ہم مسلمان ہیں، سنت کی اتباع پر اللہ کی رضا کے ساتھ ہی بخشش کا وعدہ ہے، تو بھلا کیوں نہ کریں ہمارے بیٹے اور مرد گھر کے کاموں میں مدد؟ اس عادت سے کم از کم اتنا تو ممکن ہوسکتا ہے کہ بہو کی بیماری یا شفٹ جاب وغیرہ کے سبب بیٹا صبح بھوکا کام پر نہیں جائے گا۔
[جاری ہے ]