دوسروں کا گند ۔ ابویحییٰ
ٹیکسی ڈرائیور کی زبان سے نکلی ہوئی گالی اتنی غلیظ تھی کہ کانوں سے دماغ تک جانے والی ہر رگ مجھے آلودہ ہوتی محسوس ہوئی۔ غلطی سامنے والے کی تھی، اس ٹیکسی والے کی نہیں جس میں میں بیٹھا ہوا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے اسے تنبیہ کی تو وہ ایک گالی دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ جواب میں ٹیکسی ڈرائیور نے جو کچھ کہا وہ کوئی قلم رقم کرنا چاہے گا نہ کوئی کان اسے سننا چاہے گا۔
تاہم ڈرائیور کو احساس ہوگیا کہ گاڑی میں کوئی اور بھی ہے۔ وہ اپنی زبان کے گند کو تاویل کی جھاڑو سے صاف کرنے لگا۔ وہ مجھے سمجھانے لگا کہ سامنے والے کی کیا غلطی تھی۔ اور یہ کہ آج کل سب لوگ ایسے ہی غلطی کر کے دوسروں کو غلط کہتے ہیں۔ اس نے کچھ وقفہ لیا تو میں نے پوچھا:
’’کوئی آدمی اگر راستے میں بیٹھ کر فضلات خارج کرنے لگے تو کیا تم اسے اپنے منہ میں ڈالو گے یا اپنے کپڑوں سے پوچھو گے۔‘‘، میرا سوال بالکل غیر متوقع تھا۔ وہ سٹ پٹا کر بولا:
’’وہ الگ بات ہے۔ اِس نے تو۔ ۔ ۔ ‘‘، میں نے اسے بات پوری نہیں کرنے دی۔
’’الگ بات صرف یہ تھی کہ اس نے اپنا گند منہ سے نکالا تھا۔ مگر تم نے اس گند کو اپنے منہ میں ڈال لیا۔ تم سمجھتے ہو کہ تم نے غصہ اتار دیا۔ مگر جو گند تم نے اپنی زبان سے ذہن تک پہنچایا ہے وہ کیسے صاف ہوگا؟
ٹیکسی ڈرائیور شاید ٹی وی کے ٹاک شو نہیں دیکھتا تھا جہاں اپنی ہر غلطی کو درست ثابت کرنا اہل صحافت اور اہل سیاست کے فن کا کمال سمجھا جاتا ہے۔ وہ خاموشی سے بولا:
’’بس غصہ آگیا۔ مگر آپ ٹھیک بولتے ہیں۔ گندے آدمی کی بات کا کیا جواب دینا۔‘‘
میں نے سوچا کہ کاش ہم یہ سبق سیکھ لیں کہ کسی کے گند سے خود کو گندا کرنا حماقت ہے۔ مگر شاید اس کے لیے صبر کی جو صلاحیت چاہیے وہ ہم میں بہت کم ہے۔