بے وقوف کون ہے؟ ۔ ابویحییٰ
’’ہوسکتا ہے کہ لوگ مجھے احمق سمجھیں لیکن اگر میں احمق ہوں تو دوسرے لوگ مجھ سے زیادہ بے وقوف ہیں‘‘، یہ جملہ ادا کر کے وہ لمحہ بھر کے لیے ٹھٹکے اور پھر بولے۔ ’’ضروری نہیں کہ انشورنس کرانے کے بعد میں اس کے ملنے تک زندہ رہوں، ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں میری آمدنی بڑھ جائے کہ مجھے انشورنس کی رقم کی ضرورت ہی نہ رہے، لیکن موت کی لاچاری اور حشر کی محتاجی ہر شخص کو دیکھنی ہے، میری توجہ اس دن کے انشورنس کی طرف ہے۔ جبکہ دنیا کا انشورنس اس روز کام نہیں آئے گا‘‘ یہ بات کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔ میں بھی خاموشی سے یہ تجزیہ کرنے لگا کہ بے وقوف کون ہے۔
اس گفتگو کا پس منظر یہ تھا کہ یہ صاحب اپنے ایک رشتہ دار کے انشورنس کی رقم جمع کرانے گھر سے نکلے اور واپسی پر مجھ سے ملنے آگئے۔ بات چیت میں ذکر چھڑا تو انہوں نے بتایا کہ اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کے چھوٹے موٹے کام وہ اپنے فارغ وقت میں کر دیتے ہیں۔ آج انہوں نے دفتر کی چھٹی کی تو گھر میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے کے بجائے وہ اپنے ایک رشتہ دار کا انشورنس جمع کرانے چلے گئے۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے بھی انشورنس کرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے یہ والا انشورنس نہیں کرایا البتہ یہ جو میں لوگوں کے چھوٹے چھوٹے سے مسائل حل کرتا ہوں یہی اصل میں میری انشورنس پالیسی ہے۔ حضور نبی کریم نے فرمایا ہے کہ اللہ بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ میں ہمیشہ ممکن حد تک دوسروں کی مدد کرتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ خدا ہمیشہ میرے مسائل میں میری مدد کرتا ہے۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ میری اصل بیمہ پالیسی خدا مجھے اس وقت دے گا جب حشر کے دن خدا کے سائے کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ اس روز وہ سب سے بڑھ کر میری مدد کرے گا اور قیامت کی ہر سختی سے بچا کر جنت میں داخل کر دے گا۔
پھر انہوں نے وہ جملہ کہا جو میں نے شروع میں نقل کیا ہے۔ یہ گفتگو تو ختم ہوگئی لیکن دنیا کے ہر عقلمند کے لیے ایک سوال چھوڑ گئی۔ وہ سوال جو بہت جلد خیال سے حقیقت کا روپ دھارنے والا ہے۔