لعنت نہیں بلکہ تربیت ۔ ابویحییٰ
بزرگوار کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ ان کی زبان سے الفاظ نہیں آگ نکل رہی تھی۔ میں بڑے تحمل سے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔ اس گفتگو کا قدرے مہذب اور قابل بیان مفہوم کچھ اس طرح تھا۔
’’لعنت ہے اس قوم پر۔ ۔ ۔ آپ دیکھئے کہ اس ملک میں فوج کا سربراہ دو تہائی اکثریت رکھنے والے وزیراعظم کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرتا ہے اور علانیہ ٹی وی پر کہتا ہے کہ میں نے کوئی (coup) نہیں کیا بلکہ یہ’ کاؤنٹرکو‘ تھا۔ مطلب یہ کہ وزیراعظم جو ملک کا انتظامی سربراہ ہے اگر فوج کے چیف کو اس کے منصب سے ہٹانے کی کوشش کرے تو اصل بغاوت یہ ہے۔ چنانچہ اس جرنل نے عوامی بغاوت کو کچل دیا اور پھر آٹھ برس تک اقتدار کے مزے لوٹتا رہا ہے اور قوم اسے برداشت کرتی رہی۔
اس ملک کا اپوزیشن لیڈر جو سیاست میں اسلام کے نام پر کھڑا ہے، علانیہ عہد کرتا ہے کہ وہ اور اس کی پارٹی اسمبلیوں سے استعفٰی دے گی۔ اس کے بعد وہ اپنے عہد سے مکر جاتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ اس قوم میں ایک لیڈر کی حیثیت سے موجود ہے، لعنت ہے اس قوم پر۔ ۔ ۔ اور دیکھئے کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا چیئرمین مری میں ایک معاہدہ کرتا ہے اور قوم سے وعدہ کرتا ہے کہ تیس دن میں جج بحال ہوجائیں گے۔ پھر وہ علانیہ یہ کہتا ہے کہ معاہدہ مری کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ پھر بھی قوم ایسے وعدہ خلاف لیڈروں کو برداشت کرتی ہے۔ لعنت ہے اس قوم پر۔‘‘
ان کی بات ختم ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ بزرگوار آپ کا غصہ بجا ہے لیکن یہ وقت لعنت کرنے کا نہیں ہدایت کی دعا کرنے کا ہے۔ قوم کو یہ بتانے کا ہے کہ حلف توڑنے والا اور عہد توڑ نے والا کوئی شخص لیڈر بنائے جانے کے نہیں بلکہ حضور کے الفاظ میں بے دین اور منافق قرار دیے جانے کے قابل ہے ۔دیکھیے! قوم اولاد کی طرح ہوتی ہے۔ اولاد پر لعنت نہیں کی جاتی اس کی تربیت کی جاتی ہے۔
یہ آخری بات شاید ان کی سمجھ میں آگئی۔ انھوں نے سر جھکایا خدا سے مخاطب ہوگئے۔ میں جو ان کی گفتگو سنتے ہوئے دعا کر رہا تھا، ان کے جانے کے بعد اپنے قارئین سے مخاطب ہوگیا۔