بدگمانی ۔ پروفیسر محمد عقیل
بدگمانی کیا ہے؟ کسی کے بارے میں برا سوچنا، اس کے بارے میں غلط اندازے لگانا اور پھر ان اندازوں اور مفروضوں کی بنیاد پر کوئی اقدام کر گزرنا۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کسی سے کوئی شکایت، کوئی تکلیف، کوئی اختلاف یا کوئی پریشانی ہو جاتی ہے۔ اب ہم اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اس نے ایسا رویہ کیوں اختیار کیا، ایسا منہ کیوں بنایا، کیوں وہ اس وقت خاموش رہا وغیرہ۔
یہ بظاہر ایک نارمل سی بات ہے جو ہمارے ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ دراصل ہم کسی کے غلط روئیے کی توجیہہ کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ بات عام طور پر باڈی لینگویج میں ہوتی ہے اس لئے ہم اس سے براہ راست اس روئیے کی وجہ بھی نہیں پوچھ پاتے۔ یہیں سے گمانوں کا سفر شروع ہوتا ہے، یہیں سے ہم ٹوہ لینا شروع ہوجاتے ہیں، یہیں سے ہم اندازوں میں غلطاں ہوجاتے ہیں کہ شاید یہ وجہ ہوگی یا وہ وجہ۔
اس منفی سوچ کے موقع کو شیطان بہت آسانی سے استعمال کرتا اور ہمارے ذہن میں اپنے بھائی یا بہن کے خلاف سوچیں پیدا کرتا ہے۔ وہ یہ خیال دل میں ڈالتا ہے کہ ضرور وہ تمہارا مخالف ہے، ضرور وہ تمہیں ناپسند کرتا ہے، وہ ضرور کسی سازش میں مصروف ہے، وہ ضرور کوئی کاروائی کرنا چاہتا ہے وغیرہ۔
بدگمانی کی حقیقت کو دیکھا جائے تو کچھ نہیں محض ایک مفروضہ ہے جس کا کوئی نہ کوئی نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی نے ہمارے سوال کا جواب نہیں دیا تو یہاں سے ہم نے اس کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ بدگمانی کی ابتدا ہوئی اور دماغ میں سوچیں چلنا شروع ہوگئیں۔ ’’اس نے جواب اس لئے نہیں دیا کہ شاید وہ مجھے کمتر سمجھتا ہے، شاید وہ بات نہیں کرنا چاہتا، شاید وہ مغرور ہے، شاید وہ امیر ہے اور میں غریب، شاید یہ شاید وہ۔‘‘ اب اس واقعے کے بعد ہم اس شخص کو اپنے انہی مفروضات کی روشنی میں دیکھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پھر ہمیں اس کی چال میں بھی تکبر نظر آنے لگتا، اس کی بول چال تحقیر آمیز لگتی اور اس کا طرز زندگی بناوٹی لگتا ہے۔
بدگمانی ایک مفروضہ ہے جو اگر درست ہو بھی جائے تو بھی ہماری زندگی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اگر یہ غلط ہوجائے تو ہماری زندگی کے کئی قیمتی لمحات ضائع ہوجاتے ہیں۔ ہماری بدگمانی سے سامنے والے کو کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ ہم خود ہی غلط اندازوں کی بنیاد پر جلتے اور کڑھتے رہتے ہیں۔ کبھی حسد کا شکار ہوجاتے، کبھی غصے میں مٹھیاں بھینچتے، کبھی کسی انتقامی کاروائی کا سوچتے، کبھی مزا چکھانے کا خیال دل میں لاتے تو کبھی کسی سازش کے تانے بانے بننے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب جب وہ شخص ہم سے ملتا ہے تو پرسکون ہوتا ہے۔ اس کا سکون دیکھ کر تن بدن میں اور آگ لگ جاتی ہے اور ایک اور بدگمانی کا اضافہ ہوجاتا ہے کہ شاید یہ ہمیں مزید مشتعل کر رہا ہے۔
بدگمانی کا اصل سبب سوچنا اور غلط سوچنا ہے۔ اس کا علاج سوچنے سے گریز کرنا یا خوش گمانی ہے۔ ہمیں ہر اس مفروضے، اندازے، تخمینے اور سوچ کو قابو کر لینا چاہئے جس سے بدگمانی پیدا ہو۔ ہمیں ہر صورت میں اپنے بھائی یا بہن کو انسان سمجھنا چاہِے کہ ممکن ہے اس سے غلطی ہوگئی ہو، ممکن ہے وہ بھول گیا ہو، ممکن ہے وہ پریشانی کی وجہ سے ایسا کر گیا ہو وغیرہ۔ بدگمانی کا علاج مثبت سوچ، دوسروں کو معاف کر دینا، ان کی کوتاہیوں سے صرف نظر کرنا، ان کو مجبوریوں کا مارجن دینا اور ان سے یکطرفہ محبت کرنا ہے۔ بصورت دیگر ہم مفروضوں کی بنیاد پر عین ممکن ہے کوئی ایسا اقدام کر بیٹھیں جس سے ہماری دنیا و آخرت دونوں متاثر ہوں۔