بچے، تربیت اور سزا ۔ شفقت علی
جہاں بچوں کی تربیت کی بات ہو وہیں بچوں کو سزا دیں یا نہ دیں، اس بات کا سوال ضرور پیدا ہوتا ہے۔ اکثر والدین یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ بچے ہماری بات نہیں مانتے۔ ہم اُن کی رہنمائی کرنا چاہتے ہیں مگر وہ ہماری بات نہیں سنتے۔ بالآخر ہمیں اپنی بات منوانے کے لیے اُنہیں ڈانٹنا پڑتا ہے، جھڑکنا پڑتا ہے اور بعض اوقات تو جسمانی سزا بھی دینا پڑتی ہے۔ کیا ہمارا یہ رویہ درست ہے؟
اِس حوالے سے جو بات میں نے نوٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ زیادہ تر والدین بچوں کو بطور عادت ڈانٹتے ہیں نہ کہ بطور تربیت۔ اسی طرح بچوں کو جسمانی سزا بھی اپنی کسی نفسیاتی اُلجھن کی بنا پر دے رہے ہوتے ہیں نہ کہ بچے کی تربیت کی نیت سے۔ مثلاً کسی کا غصہ بچوں پر اُتار دیا، کوئی کام خراب ہوگیا تو بچوں کو ڈانٹنا پیٹنا شروع کر دیا وغیرہ۔ یہ رویہ بچوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے، والدین کو اِس پہ نادم ہونا چاہیے اور فوراً یہ رویہ ترک کرد ینا چاہیے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تربیتی عمل میں اگر بچے ہماری بات کو فالو(follow) نہیں کر رہے تو اِس کی اصل وجہ ہماری اپنی کمزوری ہے نہ کہ بچوں کی غلطی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں بچوں کی رہنمائی نہیں کرنی آتی اور نہ ہی ہم یہ سب سیکھنے کو تیار ہیں۔ اگر ہم بچوں کی رہنمائی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں رہنما بننا ہوگا اور رہنمائی کا فن سیکھنا ہوگا۔ رہنمائی کے فن میں سب سے اہم کام ہیں: بچے کو سمجھنا، دوستانہ تعلق قائم کرنا اور مؤثر ابلاغ۔ اِن کی مزید تفصیل درج ذیل ہے:
بچے کو سمجھنا:
رہنمائی میں سب سے اہم کام ہے بچے کو سمجھنا، اُس کی نفسیات کو سمجھنا، اُس کے مزاج اور پسند و ناپسند کو سمجھنا اور بچوں کے درمیان پائے جانے والے انفرادی اختلافات کو مدنظر رکھنا۔ بچے کو اُس کے لیول پر جاکر سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ آپ کی بات کو فالو کیوں نہیں کر رہا۔ کیا کہیں بچے کو کوئی نفسیاتی و جذباتی مسئلہ تو نہیں؟
بچے کے پاس چونکہ الفاظ کم ہوتے ہیں اس لیے وہ زیادہ تر اپنے افعال (actions) سے اپنے مسئلے کو بیان کرتا ہے۔ وہ ضد کرتا ہے یا ہماری بات کے اُلٹ عمل کرتا ہے۔ مگر ہم بجائے یہ کہ اُس کا مسئلہ سمجھیں غصے میں آکر اُسے تھپڑ لگا دیتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ بچے کو مزید نفسیاتی و جذباتی مسائل میں مبتلا کر دیتا ہے۔ لہٰذا تحمل سے بچے کی کیفیات کو نوٹ کریں اور غور و فکر کریں کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔اس غور و فکر کرنے اور ٹھیک نتیجے تک پہنچنے میں ہوسکتا ہے کچھ دن لگ جائیں، لہٰذا تحمل سے یہ کام جاری رکھیں۔ کچھ دن بعد آپ بچے کے غلط رویے کے پیچھے محرکات (stimuli) اور وجوہات جان جائیں گے۔ بس اِن محرکات اور وجوہات کا ازالہ کیجیے۔
دوستانہ تعلق قائم کرنا:
دوستانہ تعلق قائم کرنے کا مطلب ہے کہ بچے اور آپ کے درمیان محبت اور اعتماد بھرا رشتہ ہو جسے بچہ بھی اچھے سے سمجھتا ہو۔ یہ تعلق قائم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اُسے اپنا کوالٹی ٹائم دینا شروع کر دیں۔ یعنی ایسا وقت جو چاہے مقدار میں تھوڑا ہو مگر خاص ہو۔ ایسا وقت جب آپ مکمل اُس کے لیے دستیاب ہوں اور آپ کا دل و دماغ اُسی کی طرف ہو۔ آپ اِس وقت میں اُس کے ساتھ مل کر کھیلیں، اُس کی باتیں سنیں، ٹی وی یا یوٹیوب پہ کوئی مفید چیز دیکھیں، مل کر گھر کا کوئی کام کرنا شروع کر دیں، اُسے ساتھ لیکر باہر گھومنے، سیر کرنے، شاپنگ کرنے یا کھانا کھانے کے لیے لے کر چلے جائیں وغیرہ۔
مؤثر گفتگو:
بچوں کی تربیت میں مؤثر گفتگو نہایت اہم ہے اور مؤثر گفتگو میں بچے کو سننا۔ بچے کی بات کو توجہ سے سنیں اور اُسے محسوس کروائیں کہ اُس کی بات قابلِ توجہ ہے۔ بچے کو موقع دیں کہ وہ اپنی بات یا مسئلہ کھل کر آپ سے بیان کرسکے۔ بچے سے گفتگو کرنے سے پہلے سوچیں کہ کونسے الفاظ استعمال کرنے ہیں۔ نیز یہ بھی دیکھیں کہ بچہ کس وقت آپ کی بات کو سننے اور سمجھنے کی پوزیشن میں ہے۔ بچے کو آسان فہم، بامعنی اور واضح الفاظ میں بات سمجھائیں۔ بات سمجھاتے ہوئے لہجہ دھیما اور آنکھوں کا رابطہ (eye contact) ضرور رکھیں۔ کوشش کریں کہ آپ اپنی بات سوالیہ انداز میں کریں تاکہ بچے کو سوچنے سمجھنے کا موقع ملے۔