بچے ہمارے عہد کے 1 ۔ فرح رضوان
موت کا فرشتہ، روح قبض کرنے کے لیے عموماً اچانک سے نہیں آجاتا، بلکہ بذریعہ قاصد ہمیں پیغامات مل رہے ہوتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ بالوں کا سفید ہونا، جسم اور بینائی اور دانتوں کا کمزور ہونا، سب واپس روانگی کی جانب اشارہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن بے برکت وقت میں اس پر دھیان دینے کی فرصت کسے ہے؟ اور مصروف زندگی کی بھاگ دوڑ کے باعث اسی قسم کی لاپرواہی اکثر والدین اپنے بچوں کو پروان چڑھانے کے دوران بھی کر رہے ہوتے ہیں جس کے پیچھے فقط ایک سوچ کار فرما ہوتی ہے کہ ابھی بچہ ہے، بڑا ہو کر سیکھ جائے گا۔
گھر کا پرانا درخت بھی اگر پھیکے یا کم پھل دینے لگے تو فورا اس کی جڑوں کو آکسیجن پہنچانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جڑوں میں کھاد، پانی اور گڑ ڈالا جاتا ہے، مگر جس جگہ سب سے زیادہ گراس روٹ پر کام کرنے کی ضرورت ہے وہاں وقت گنوا دیا جاتا ہے۔
وقت گزرنے پر تو سبھی جانداروں میں جسمانی تبدیلی آجاتی ہے۔ بیج پودا اور پھر درخت بن جاتا ہے، میمنا بکری بن جاتا ہے، بچھڑا گائے بن جاتا ہے، یہاں تک کہ انڈہ بھی اگر فرائی ہوکر لقمۂ اجل بننے سے محفوظ رہ پائے، تو مرغ مسلم تک عروج پاتا ہے، لیکن انسان کے بچے کے لیے یہ سوچنا، کہ تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا، اس وقت تک تصور ہی رہے گا جب تک کہ کوئی جی جان سے اس کی کردار سازی پر محنت نہ کرے گا۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم چھ ماہ کے بچے کو کارٹون اور i-pad سے متعارف کروانا تو کبھی نہیں بھولتے، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے کی پیدائش کے وقت، والدین سے قبل شیطان ان کی اولاد تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کی پسلیوں میں اپنی انگلیاں چبھا کر اسے رلاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم کھا کر اپنے وعدے پر قائم کہ انسان اوراس کی اولاد کو نرم غذا کی طرح کھا جائے گا اور بہکا کر ہی دم لے گا۔
آج وہ دورآ گیا ہے کہ اگر ایک مرغی انڈوں پر بیٹھتی ہے تو اس کے پاس بھی ہمارے مقابلے میں بہت وقت ہوتا ہے، کہ وہ اپنے انڈے کو الٹے پلٹے، سہلائے چمٹائے، دانہ دنکا کھا کر لوٹے، اور پھر بیٹھ جائے۔
لیکن! انسان کے بچے کی پرورش کے لیے شروع کے تین سے پانچ سال کے سوا کوئی بہترین وقت نہیں۔ اگر اس وقت کو درست استعمال کر لیا تو پھر یہی بنیاد نہ صرف مضبوط ستونوں کا موجب بنے گی، بلکہ اس پر ہی بلند عمارات بھی تعمیر ہو سکیں گی۔ اسی صاف ستواں کینوس پر انشااللہ ڈھیروں خوبصورت رنگ ابھریں گے۔
ہم اکثر، منہدم پلوں ٹوٹی سڑکوں اور ٹریفک جام کا رونا روتے ہیں، کیونکہ یہ رکاوٹیں اور دشواریاں ہماری منزل تک پہنچ کو کٹھن اور ناممکن بنا دیتی ہیں۔ اسی طرح سے والدین کا آپس میں ٹوٹا ہوا تعلق، یا ان کا اپنے رب سے بے ربط رہنا، بچوں کی منزل کی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ کیونکہ والدین ہی تو وہ پل ہیں، جو اس دنیا میں اپنے بچوں کو، اگلے جہان سے متعارف کرواتے ہیں ۔اور جہاں بچوں کو اللہ سے محبت اور اس کی ناراضگی کے خوف کا احساس دلانا ضروری ہے، وہیں شیطان کی انسان سے ازلی دشمنی اور اس کے ہتھکنڈوں کو سمجھانا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، بلکہ صحیح معنوں میں تو ہمیں شیطان کے traps اور tactics کو جاننے اور گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی تو ہم اپنے بچوں کو اس سے بچانے کے قابل ہو سکیں گے۔ ساتھ ہی والدین کا بچے سے تعلق ہر غلط بات پر صرف ڈانٹ ڈپٹ، مار دھاڑ اور ہنگامہ آرائی کا ہی نہ ہو بلکہ ایسا ہونا چاہیے کہ بچہ اپنی بڑی سے بڑی غلطی کو بھی آپ سے چھپانے کے بجائے، آپ کو اپنے پیچیدہ ترین مسائل کا بہترین کاؤنسلر سمجھتا ہو۔
اکثر بچوں کو وسوسے بہت پریشان کرتے ہیں۔ اتنے فضول تصورات اور ناقابل بیان باتیں ذہن میں آتی ہیں کہ وہ منہ نہیں کھول پاتے، اور بے سبب باغی ہوتے دکھائی دیتے ہیں، جب کبھی بھی براہ راست بات بنتی نظر نہ آئے تو ایسی صورت میں قصے اور کہانیوں کے ذریعے ان سے مکالمے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ جبکہ کچھ بچوں کو باقاعدہ جسمانی شکل میں کوئی کردار(شیطان) دکھائی دیتا ہے، جو ان کو حکم دیتا اور دھمکاتا رہتا ہے اور رازداری پر مصر رہتا ہے۔ اس وقت ان کو ایک بہترین مددگار کی اشد ترین ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ ایک تنہا معصوم بچہ بہت حوصلہ کر کے والدین کو یہ بات بتا رہا ہوتا ہے۔ اول تو یہ کہ ان کی بات پر یقین کیا جائے کہ حقیقتاً اس کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے۔ دوسرا اس سے نجات کا راستہ، جو اس بچے کو ناممکن لگ رہا ہوتا ہے، اس کے لیے کسی عامل کی نہیں بلکہ آپ کے ایمان کامل، جس میں عقل و حکمت بھی شامل ہو، کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہی تو وہ وقت ہے جب بچے کا ایمان پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتا ہے کہ اس برے کردار سے نہ ڈر کر، آپ سے مشورہ کرنے کے باعث، اللہ سے دعا مانگنے کے سبب، صرف لاحول پڑھنے سے، یا صرف سورۂ بقرہ کی تلاوت سے یا صرف اَعوذُ بااللہ ہی پڑ ھتے رہنے سے یا معوذتین اور آیت الکرسی کے ورد کی برکت سے اس کی اتنی بڑی آفت، مصیبت، پریشانی، خوف، دھڑکا، خدشہ، اذیت، آزمائش، کشمکش اور ہیجانی کیفیت، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ہو گئی۔