اعتبار پیدا کیجیے ۔ مولانا وحید الدین خان
ایک آدمی نے کاروبار شروع کیا۔ اس کے پاس مشکل سے چند سو روپے تھے۔ وہ کپڑے کے ٹکڑے خرید کر لاتا اور پھیری کر کے اس کو فروخت کرتا۔ کچھ کام بڑھا تو اس نے ایک دکان والے سے اجازت لے کر اس کی دکان کے سامنے پٹری پر بیٹھنا شروع کر دیا۔
کپڑے کے جس تھوک فروش سے وہ کپڑا خریدتا تھا اس سے اس نے نہایت اصول کا معاملہ کیا۔ دھیرے دھیرے اس تھوک فروش کو اس آدمی کے اوپر اعتبار ہوگیا۔ وہ اس کو ادھار کپڑا دینے لگا۔ جب آدمی ادھار پر کپڑے لاتا تو اس کی کوشش رہتی کہ وعدہ سے کچھ پہلے ہی اس کی ادائیگی کر دے۔ وہ اسی طرح کرتا رہا۔ یہاں تک کہ تھوک فروش کی نظر میں اس کا اعتبار بہت بڑھ گیا۔ اب وہ اس کو اور زیادہ کپڑے ادھار دینے لگا۔ چند سال میں یہ نوبت آگئی کہ تھوک فروش اس کو پچاس ہزار اور ایک لاکھ روپے کا کپڑا بے تکلف دے دیتا۔ وہ اس کو اس طرح مال دینے لگا جیسے وہ اس کے ہاتھ نقد فروخت کر رہا ہو۔
اب آدمی کا کام اتنا بڑھ چکا تھا کہ اس نے ایک دکان لے لی۔ دکان بھی اس نے نہایت اصول کے ساتھ چلائی۔ وہ تیزی سے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے شہر میں کپڑے کے بڑے دکانداروں میں شمار کیا جانے لگا۔
اس دنیا میں سب سے بڑی دولت روپیہ نہیں، بلکہ ”اعتبار“ ہے۔ اعتبار کی بنیاد پر آپ اسی طرح کوئی چیز لے سکتے ہیں جس طرح نوٹ کی بنیاد پر کوئی شخص بازار سے سامان خریدتا ہے۔ اعتبار ہر چیز کا بدل ہے۔ مگر اعتبار زبانی دعووں سے قائم نہیں ہوتا اور نہ اعتبار ایک دن میں حاصل ہوتا ہے۔ اعتبار قائم ہونے کی صرف ایک ہی بنیاد ہے اور وہ حقیقی عمل ہے۔ خارجی دنیا اس معاملہ میں انتہائی حد تک بے رحم ہے۔ لمبی مدت تک بے داغ عمل پیش کرنے کے بعد ہی وہ وقت آتا ہے کہ لوگ آپ کے اوپر وہ اعتبار قائم کریں جو اعتبار مذکورہ تھوک فروش نے ایک پھیری والے کے اوپر قائم کیا تھا۔