مضامین قرآن (83) شخصی رویے:حب عاجلہ ۔ ابویحییٰ
انسان کی دنیا اور خدا کی دنیا
ہمارے چاروں طرف خدا کی بنائی ہوئی دنیا موجود ہے۔ اس دنیا میں ہر طرف تدریج کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ یہاں سورج کے طلوع ہونے سے پہلے فجر کا سپیدا نمودار ہوتا ہے۔ یہاں شب سے پہلے شفق کا مرحلہ سامنے آتا ہے۔ یہاں انسان کا وجود نو ماہ شکم مادر میں گزار کر اس دنیا میں جنم لیتا ہے۔ درخت لگانے سے پھل پانے اور فصل اگانے سے اسے کاٹنے تک بھی بہت سے مراحل آتے ہیں۔ غرض خدا کی دنیا میں ہر چیز مختلف تدریجی مراحل سے گزر کر اپنے مقصود تک پہنچتی ہے۔
ایسا نہیں کہ انسان اس تدریج کو نہیں سمجھتے۔ انسان اس کو سمجھتے ہیں اور خود کو اس کے مطابق ڈھال کر زندگی گزارتے ہیں اور جلد بازی نہیں کرتے۔ انسان کاروبار، زراعت، ملازمت وغیرہ میں یہ جانتا ہے کہ پہلے پیسے لگانے پڑتے ہیں، محنت کرنا ہوتی ہے پھر کہیں جاکر نتیجہ نکلتا ہے۔ انسان بچے پیدا کرتا اور بڑے حوصلے سے ان کی پرورش کرکے ان کے جوان ہونے کا انتظار کرتا ہے کہ ان کی خوشیاں دیکھ سکے اور ان کے سائے میں اپنا بڑھاپا گزار سکے۔ انسان حصول تعلیم میں برسوں لگاتا ہے اور پھر کہیں جاکر قابلیت کا وہ ثمر حاصل کرتا ہے جو زندگی میں کامیابی کی ضمانت ہوتاہے۔
تاہم جب معاملہ قومی زندگی کا ہو تو انسان خدا کی اس تدریجی اسکیم کو نہیں سمجھ پاتا۔ وہ بھول جاتا ہے کہ خدا کی جو تخلیقی اسکیم باقی کائنات میں روبہ عمل ہے وہی قوموں کی زندگی میں بھی کارفرما ہے۔ قوموں کی زندگی میں بھی ایک لمحے میں کچھ نہیں ہوتا۔ اس میں مختلف مراحل آتے ہیں۔ ہر مرحلے میں وقت لگتا ہے اور قومیں بتدریج عروج و زوال کا سفر طے کرتی ہیں۔ یہی معاملہ آخرت کے ان مقامات کا ہے جو دنیا کے مقابلے میں بہت دور محسوس ہوتے ہیں۔ انسان سزا اور جزا کا فوری طلبگار ہوتا ہے اور اپنی جنت اور جہنم فوراً چاہتا ہے۔ وہ نہ ملے تو خدا سے مایوس ہوکر اسی دنیا کو اپنی ہر سعی و کاوش کا آخری مقصود سمجھ کر معاملہ کرنے لگتا ہے۔ یہی وہ دو پہلو ہیں جن کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کی جلد بازی پر بار بار متنبہ کرکے درست رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔
قومی امور میں جلد بازی
اللہ تعالیٰ نے قوموں کی زندگی میں بھی اسی طرح مراحل رکھے ہیں جس طرح فرد کی زندگی میں رکھے ہیں۔ قومیں تاریخ کے بطن سے جنم لیتی اور بچپن کی ناتوانی اور جوانی کے عروج سے گزر کر بڑھاپے کے زوال سے ہوتی ہوئی فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ قوموں کی زندگی کی یہ مدت ہزاروں سال پر محیط ہوتی ہے اور کسی فرد کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی میں قوموں کے عروج و زوال کے تمام مراحل کو دیکھ سکے۔ ہر شخص اپنی قوم کے عروج کا طلبگار ہوتا ہے لیکن قومیں ایک تدریج ہی سے آگے بڑھتی ہیں۔ قوموں کو اچھی فکری اور سیاسی قیادت مل جائے تو وہ جلد بازی کے بجائے صبر اور منصوبہ بندی کے اصول پر قوم کی تعمیر کرتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا عروج طویل تر اور زوال موخر ہوجاتا ہے، مگر آخرکار خدا کے قانون کے مطابق ہر قوم بتدریج ہلاکت کی وادیوں میں اترجاتی ہے۔
قرآن مجید نے قوموں کی زندگی کی اس حقیقت کو اصولی طور پر بیان کیا ہے، لیکن اصلاً قرآن مجید میں وہی اقوام زیر بحث رہی ہیں جن میں اللہ کے رسولوں کی بعثت ہوتی ہے۔ ایسی اقوام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ضابطہ یہ ہے کہ جب ان میں رسول کی بعثت ہوجاتی ہے تو پھر ان کے قومی وجود کا تمام تر دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ رسول کی بات مانتے ہیں یا کفر کرتے ہیں۔ مانتے ہیں تو ان کو زمین میں غلبہ واقتدار دے دیا جاتا ہے اور نہیں مانتے تو قوم کو ہلاک کر دیا جاتا ہے اور ماننے والوں کو بچا لیا جاتا ہے۔ ہلاکت کا یہی وہ عذاب ہے جس کا انذار قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کو بار بار کیا گیا اور اسی پس منظر میں پچھلے رسولوں کی اقوام کے قصے سنائے گئے کہ جب انھوں نے اپنے رسولوں کا کفر کیا تو کس طرح ان کو ہلاک کر دیا گیا۔
تاہم کسی قوم کی یہ ہلاکت رسول کے آنے اور دعوت و تبلیغ کے فوراً ساتھ نہیں ہوتی بلکہ اس قوم کو ایک وقت دیا جاتا ہے۔ اس وقت میں قوم کے پاس موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کرلے۔ اس دوران میں ان کے ہر سوال، اشکال، الجھن اور اعتراض کا جواب دے کر ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وہ مہلت ہے جس کو دیکھ کر کفار اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ رسول جس عذاب کی خبر دے رہا ہے وہ نہیں آئے گا۔ وہ خدا کی حکمت اور تدریج کے آفاقی قانون کو سمجھنے کے بجائے عذاب کی جلدی مچاتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو عذاب لاؤ۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن مجید میں کفار کو بار بار یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر ہم تمھارے کہنے سے عذاب جلد لے آئیں تو اس میں تمھارا ہی نقصان ہے کہ پھر تمھاری مہلت عمل فوراً ختم ہوجائے گی۔
جلد بازی کا یہ ظہور ایک طرف تو کفار کی طرف سے ہوتا ہے۔ دوسری طرف ان کے مطالبات کی بنا پر اہل ایمان اور خود رسولوں میں بھی یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ فیصلہ ہوجانا چاہیے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ کفار کے لیے مہلت کا یہ وقت اہل ایمان کے لیے بہت سخت آزمائش کا مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ انھیں کفار کی طرف سے مسلسل عذاب اور استہزا کا سامنا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ بھی اس صورتحال سے نکلنے کے لیے خدا کی نصرت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ عجلت کا ایک اور پہلو وہ ہے جس میں خود اللہ کے رسول یہ چاہتے ہیں کہ آسمانی وحی ان کو جلدی جلدی ملا کرے۔ کیونکہ ان مشکل حالات میں یہی ان کے لیے سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے۔
قرآن مجید نے ان تمام پہلوؤں سے جلدبازی سے روکا ہے۔ کفار کو تنبیہ کے ساتھ اہل ایمان کو ثابت قدمی کی تلقین کی گئی ہے اور رسولوں کو خدا کے فیصلے کے انتظار کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ سمجھایا گیا ہے کہ خدا اپنی حکمت کے مطابق وحی بھیجتا ہے، اس پر جلدی کرنے کے بجائے خدا سے مانگنا اور اسی پر بھروسہ رکھنا اصل مطلوب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ سنا کر یہ بتایا گیا ہے کہ ایک پیغمبر کی جلدی اس کی قوم کو کس مشکل امتحان میں ڈال سکتی ہے اور حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے میں بتایا گیا ہے کہ خدا کے فیصلے کا انتظار نہ کرنا کتنا سنگین ہوسکتا ہے۔ بنی اسرائیل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے پیغمبر کا انتظار نہ کرکے جلدی میں خود دین سازی کا عمل کیا اور بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے۔
قرآن مجید کی ان ہدایات اور تنبیہات کا گرچہ عام اقوام سے براہ راست تعلق نہیں۔ مگر قومی زندگی کے بارے میں یہ رہنمائی ضروری ملتی ہے کہ اجتماعی معاملات میں جلد بازی ضرر رساں ہوتی ہے۔ قومی زندگی میں صبر اور استقامت کے ساتھ اپنا کام کرتے رہنا اور خدا کے فیصلوں کا انتظار کرنا ہی درست لائحہ عمل ہوتا ہے۔
دنیا و آخرت اور جلد بازی
قوموں کے معاملات میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ خدا کے فیصلے کچھ تاخیر سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ فیصلے اسی دنیا میں ظاہر ہوجاتے ہیں۔ انسان سر کی آنکھوں سے نہ سہی مگر علم و عقل کی آنکھوں سے انھیں تاریخ کے صفحات پر رونما ہوتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔ تاہم آخرت اور وہاں ملنے والی جنت و جہنم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بہرحال اس دنیا میں نہیں مل سکتی۔ اس دنیا میں انسان نہ جنت کو کبھی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے نہ جہنم کو۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں انسان دنیا کی محبت کا شکار ہوکر زندگی گزار تے ہیں کیونکہ ان کی محنت و سعی کا نتیجہ بہرحال اس دنیا میں نکلتا ضرور ہے۔
لفظ دنیا کا اپنا مفہوم بھی یہی ہے کہ یہ آخرت کے مقابلے میں قریبی اور فوری چیز ہے۔ دنیا کو آخرت کے مقابلے میں اس لیے ترجیح دینا کہ دنیا کا بدلہ فوری ملتا ہے، یہی وہ شخصی رویہ ہے جو قرآن مجید میں مذمت کے پہلو سے زیر بحث آیا ہے۔ قرآن مجید نے دنیا کو عاجلہ یعنی جلد ملنے والی چیز قرار دے کر حب عاجلہ کے اس رویے پر تنبیہ کی ہے۔ تاہم جیسا کہ ہم حب دنیا کی بحث میں پیچھے یہ بتا چکے ہیں کہ یہ رویہ مطلقاً قابل مذمت نہیں بلکہ جب آخرت کو چھوڑ کر اور اس کی قیمت پر انسان دنیا کی محبت میں گرفتار ہو تو قابل مذمت ہے۔ تاہم قرآن مجید کی اس تنبیہ کے بعد ہر مسلمان کو اس احساس میں زندہ رہنا چاہیے کہ جلدی ملنے والی دنیا کے پیچھے کبھی آخرت کے ابدی اجر کو داؤ پر لگانا نہیں چاہیے۔
ضمنی طور پر قرآن مجید سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ دنیا کے معاملات میں ایک فرد کو جلد بازی اور فوری نتائج کی خواہش سے بچنا چاہیے۔ انسان کو خدا کی تدریجی اسکیم کو سمجھ کر جلد بازی کو اپنی زندگی سے نکال دینا چاہیے۔ صبر، منصوبہ بندی، اور ثابت قدمی کے ساتھ کیا گیا عمل ہی فرد اور قوم دونوں کی کامیابی کا ضامن ہے۔
قرآنی بیانات
”اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح کرو، (اے پیغمبر)، جو سب سے برتر ہے، جس نے بنایا، پھر نوک پلک سنوارے، جس نے (ہر چیز کے لیے) اندازہ ٹھیرایا، پھر (اُس کے مطابق) چلنے کی راہ دکھائی، جس نے سبزہ نکالا ،پھر اُسے گھنا سرسبز و شاداب بنا دیا۔(یہ قرآن بھی اِسی طرح ایک دن اپنے اتمام کو پہنچے گا، پھر) عنقریب اِس کو ہم پورا تمھیں پڑھا دیں گے تو تم نہیں بھولو گے، مگر وہی جو اللہ چاہے گا۔ وہ اُس کو بھی جانتا ہے جو (اِس وقت تمھارے) سامنے ہے اور اُس کو بھی جو (تم سے) چھپا ہوا ہے۔ اِسی طرح ہم (اِن مشکلوں سے بھی) درجہ بدرجہ تمھیں آسانی کی طرف لے چلیں گے۔“،(اعلیٰ1-8:87)
”(اُس کا قانون یہی ہے کہ) ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آجاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔“،(سورہ یونس 47:10)
”(اِس وقت بے خوف ہو رہے ہو، لیکن اِن سب حرمتوں کے معاملے میں تمھاری سرکشی پر وہ تمھیں بھی ایک دن لازماً پکڑے گا، اِس لیے کہ) ہر قوم کے لیے ایک مدت مقرر ہے، پھر جب اُن کی مدت پوری ہو جاتی ہے تو نہ وہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں، نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔“،(الاعراف34:7)
”(یہ عذاب کے لیے جلدی نہ مچائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ) کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک نہ کریں یا اُس کو سخت عذاب نہ دیں۔ یہ خدا کے نوشتے میں لکھا ہوا ہے۔“،(بنی اسرائیل58:17)
”(ہمارا طریقہ یہ ہے کہ) جو اِس جلد ملنے والی دنیا ہی کو چاہتا ہے، اُس کو ہم جس کے لیے چاہتے اور جتنا چاہتے ہیں، سردست یہیں دے دیتے ہیں۔ پھر ہم نے اُس کے لیے جہنم رکھ چھوڑی ہے، جس میں وہ خوار اور راندہ ہو کر داخل ہوجائے گا۔“،(بنی اسرائیل18:17)
”(اِس کے بعد) جب موسیٰ غصے اور رنج سے بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا تو (آتے ہی) کہا: تم نے میرے پیچھے میری بہت بری جانشینی کی ہے۔ کیا تم اپنے پروردگار کے حکم سے پہلے ہی جلدی کر بیٹھے؟ اُس نے تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی (ہارون) کا سر پکڑ کر اُسے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ ہارون نے کہا: یری ماں کے بیٹے، اِن لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں۔ اِس لیے دشمنوں کو میرے اوپر ہنسنے کا موقع نہ دے اور مجھے اِن ظالم لوگوں کے ساتھ نہ ملا۔“،(الاعراف150:7)
”سو اِن کے خلاف فیصلے کے لیے جلدی نہ کرو۔ ہم تو بس اِن کی گنتی پوری کر رہے ہیں۔“،(مریم 84:19)
”اِس میں شبہ نہیں کہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ سو میری ہی بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو۔“،(طہ 14:20)
”(اِن پر اتمام حجت کی جلدی میں، اے پیغمبر)، تم اِس قرآن کو جلد پالینے کے لیے اپنی زبان کو اِس پر نہ چلاؤ۔“،(القیامہ16:75)
”(یہ عذاب مانگتے ہیں)، اگر اللہ لوگوں کے لیے عذاب کے معاملے میں بھی اُسی طرح جلدی کرتا، جس طرح وہ اُن کے ساتھ رحمت میں جلدی کرتا ہے تو اُن کی مدت پوری کر دی گئی ہوتی۔ (لیکن یہ نہیں سمجھتے)، سو ہم اُن لوگوں کو جو ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے، اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔“،(سورہ یونس 11:10)
”یہ تو کہہ چکے کہ ہمارے پروردگار، ہمارا حساب تو روز حساب سے پہلے ہی ہم کو چکا دے۔“،(ص16:38)
”(پھر ہوا یہ کہ موسیٰ اُس وعدے کے لیے وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا، فرمایا: یہ اپنی قوم کو چھوڑ کر تم جلدی کیوں چلے آئے ہو، موسیٰ؟ اُس نے عرض کیا: وہ لوگ بھی یہ میرے پیچھے ہی ہیں اور پروردگار، میں تیری خوشنودی کے لیے تیرے حضور جلدی چلا آیا ہوں۔“، (طہ83-84:20)
”پھر جب اُنھوں نے اُس عذاب کو، (جس کی دھمکی اُنھیں دی گئی تھی)، دیکھا کہ ایک بادل ہے جو اُن کی وادیوں کی طرف امڈا چلا آرہا ہے تو کہنے لگے کہ یہ تو بادل ہے جو ہمیں سیراب کرنے والا ہے۔ نہیں، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔ تند ہوا جس میں دردناک عذاب ہے۔“،(الاحقاف 24:46)
”سو، (اے پیغمبر)، ثابت قدم رہو، جس طرح اولوالعزم پیغمبر ثابت قدم رہے اور اِن کے لیے (عذاب کی) جلدی نہ کرو۔ جس دن یہ لوگ اُس چیز کو دیکھیں گے جس کی اِنھیں وعید سنائی جا رہی ہے تو محسوس کریں گے کہ گویا دن کی ایک گھڑی سے زیادہ (دنیا میں) نہیں رہے۔ تمھارا کام پہنچا دینا ہے۔ اب ہلاک تو وہی لوگ ہوں گے جو نافرمان ہیں۔“،(الاحقاف 35:46)
”کہہ دو، میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور تم نے اُسے جھٹلا دیا ہے۔ تم جس چیز کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہو، وہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔ اُس کا فیصلہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ وہی حق کو واضح فرمائے گا اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔“،(الانعام57:6)
”اب چکھو، اپنے اُس فتنے کا مزہ جس میں تم مبتلا رہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے تھے۔“،(الذاریات 14:51)
”یہ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں، دراں حالیکہ (اللہ نے عذاب کی وعید سنائی ہے تو) اللہ ہرگز اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہ کرے گا۔ (اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) تیرے پروردگار کے ہاں کا ایک دن تمھاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔“،(الحج47:22)
”(لوگو، تم اِسے نہیں جھٹلا سکتے)، ہرگز نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم اِس جلد ملنے والی سے محبت کرتے ہو۔“،(القیامہ 20:75)
”(یہ اِس لیے نہیں مان رہے کہ) یہ صرف جلد ملنے والی سے محبت کرتے ہیں اور اپنے آگے ایک بھاری دن کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔“،(الدھر27:76)
”(یہ عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ) انسان عجلت کے خمیر سے پیدا ہوا ہے۔ میں عنقریب اپنی نشانیاں تمھیں دکھاؤں گا، اِس لیے مجھ سے جلدی نہ مچاؤ۔“،(الانبیا 37:21)
”(یہ اُس کی نشانی مانگتے ہیں)۔ انسان (پر افسوس، وہ اپنے لیے) جس طرح بھلائی مانگتا ہے، اُسی طرح برائی مانگنے لگتا ہے۔ انسان بڑا ہی جلدباز واقع ہوا ہے۔“،(بنی اسرائیل11:17)