بات گو ذرا سی ہے، بات عمر بھر کی ہے 2 ۔ فرح رضوان
Part II
(گزشتہ سے پیوستہ)
ہمارے معاشرے کی بہتری کے لیے، قاری صاحب، استانی جی، اور کم آمدنی والے علاقوں میں ٹیوشن کے شعبے سے تعلق رکھنے والے، خواتین و حضرات بہت بہت اہمیت کے حامل ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ، یہ ایک حصار میں قید ہیں، اس حصار کو حکمت اور اخلاق کے ساتھ ہم سب کو ہی توڑنا ہوگا، کہ ان کو جدید طریقوں، بہتر رویوں اور صبر و برداشت کے ساتھ بچوں کو پڑھانے پر آمادہ کریں تاکہ شاگرد وقت گزاری نہ کرے بلکہ استاد سے بخوشی علم حاصل کرے۔
اسی لیے بچوں کی تربیت کے ضمن میں والدین پر جہاں محنت و حکمت کی ذمہ داری آتی ہے وہیں، ان کے آمدنی کے حلال ذرائع ہونا بھی از حد اہمیت کا حامل ہے، معاش بھی حلال، معاشرتی رشتے، روئیے، رہائش، رجحانات سبھی کچھ حلال، ورنہ والدین کی ناک کے نیچے حادثات پنپ رہے ہوتے ہیں، اور انہیں خبر تک نہیں ہو پاتی۔ آسان حل یہی ہے کہ آپ معیار زندگی بلند کرنے کی بے مقصد دوڑ سے باہر نکل آئیں۔ ان شاء للہ اولاد نیکی کی طرف خود ہی گامزن ہوگی۔
والدین کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ زور اولاد کی اور اپنی کردار سازی پر خرچ کریں۔ اگر جیب اجازت دیتی ہے تو اسی ضمن میں کچھ مال بھی ضرور خرچ کریں۔ اور صرف اپنے بچے پر ہی تمام توانائیاں اور حکمت خرچ نہ کریں، بلکہ دوسرے بچوں پر بھی شفقت کا معاملہ فرمائیں، کیونکہ جس طرح ہمارے بچے دوسرے بچے سے نزلے، بخار کا وائرس لیے چلے آتے ہیں اسی طرح، بہت سی معاشرتی خرابیاں بھی متعدی ہوتی ہیں۔ اور جیسے کسی غریب کا علاج، کروانا بھی نیکی ہے، اسی طرح، بیمار ہوتی کمیونٹی کے بچوں پر کچھ وقت محنت اور مال لگانا بھی بہت بڑی نیکی ہے۔
اس ضمن میں انفاق فی سبیل اللہ کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ شروع اپنے ہی گھر سے کریں، اگر بچے کا سکائپ پر ہی پڑھنا ممکن ہو تو، صرف چند ڈالر یا پاؤنڈز دے کر کسی کم علم، کم فہم بندے سے اپنے بچے کو قرآن پڑھوانے کے بجائے مستند سلجھے ہوئے افراد کا اہتمام کریں، تاکہ ان کی دانش بچوں میں منتقل ہو۔ اور قرآن صرف رٹ لینے پر ہرگز اکتفا نہ کریں، بلکہ ہر عمر کے لحاظ سے اس کی سمجھ کو بھی یقینی بنائیں۔ اساتذہ بھی اسے ایک خشک سبجیکٹ نہ بنا ڈالیں بلکہ جس حد تک ہو، بچے کو دین پڑھانے کا ہلکا پھلکا طریقہ اپنائیں غیر ملکی بچوں کو تو کئی دن تک یہی بات سمجھ نہیں آتی کہ عربی کے حروف شروع، درمیان اور آخر میں اپنی شکلیں بدلتے ہیں۔ اس پر بھی، اساتذہ کو، بہت محنت، محبت اور صبر سے توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے پیپر پر پورا حرف لکھ کر، آدھا قینچی سے کاٹ کر، بورڈ یا کاپی پر پورا لکھ کر اور آدھا مٹا کر، جمع تفریق کے سوالات کی طرح حروف کو جوڑ کر اور توڑ کر، کرس کراس وغیرہ کی مشق، غرض ہر لحاظ سے ازبر کروانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بہتر ہوگا کہ بچے کو کلر کوڈڈ قرآن ٹیکسٹ کا اسیر نہ بنایا جائے بلکہ سبق کے دوران بار بار تجوید کے قوائد یا تو بچے سے پوچھ لیا کریں یا اسے بتاتے رہا کریں، بچے کا شروع سے اپنا قرآن ہو، ایکٹیوٹی اور یاد دہانی کے لئے اس کے آخری خالی صفحات پر چھوٹے رنگ برنگے سٹکی نوٹس پر تجوید کے الگ الگ قواعد لکھ کر چپکا دیں، جہاں بچہ بھولے، ڈکشنری کی طرح اسے خود سے دیکھنا آجائے کہ معاملہ کیا ہے، گرج برس کی نوبت ہی نہ آئے۔ بیشک بچے نے ابھی اٹک کر چار لفظ جوڑ کر پڑھنا شروع کیا ہو لیکن اہم آیات کے آتے ہی ان کو انڈر لائن یا ہائیلائٹ کروا کر ان کے معنی سمجھائیں، دعا بھی کریں اور امید رکھیں کہ ان شاء اللہ تا حیات اس کے دل پر یہ نصیحتیں نقش رہیں گی۔
بچہ پوری توجہ سے سبق پڑھ لے تو پختہ کروانے کے لیے اپنا خون نہ جلائیں بلکہ کسی بھی اچھی قرآن ویب سائٹ پر اچھے قاری کی آواز کے ساتھ، سبق کی دہرائی کروائیں، اس طرح کہ بچے کی نگاہ اپنے قرآن پر ہو، اور سماعت قاری کی آواز و انداز پر، اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اس طرح جلد ہی بچے میں عمدہ لہن کا ذوق بھی پروان چڑھے گا۔(حفظ کے لیے بھی یہ طریقہ، بہت کارگر ہے) اور www.tanzil.net اس سلسلے میں بہت زیادہ معاون ہے۔
استانی جی یا قاری صاحبان بنفس نفیس دستیاب ہوں تو ان کو اعتماد میں لے کر انہی کے ذریعے، بچے کے کبھی کوئی سورہ یاد کرنے پر، یا اچھے رویے یا نماز کی پابندی پر انعام دلوا دینے سے بچوں میں اپنے استاد سے انسیت بڑھ سکتی ہے، اس طرح ان شاء اللہ ان کی ہر روز آمد پر، رونے دھونے ضد کرنے کے بجائے، کچھ عرصے میں بچہ خود ان کا خیر مقدم کرنے لگے گا۔
رشک کا مقام ہے کہ قرآن میں پیرنٹنگ کی نمایاں ترکیب، ترتیب اور ترغیب، ایک عام صالح انسان لقمان علیہ السلام کے واقعے کو بیان فرما کر دی گئی ہے، یعنی والدین بھی اتنی مشقت کر کے بے فکر رہیں کہ اللہ تعالی بے حد قدر دان ہیں۔ البتہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ "لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِی کَبَدٍ۔” ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو مشقت میں (مبتلا رہنے والا) پیدا کیا ہے۔