موت کی یاددِہانی ۔ مولانامحمد ذکوان ندوی
کچھ دن پہلے میں اپنے ایک خاندانی بزرگ کے جنازے میں شریک تھا۔ غسل سے لے کر تدفین تک ہمارے کئی گھنٹے یہاں گزرے۔ اِس دوران جو عمومی تجربہ ہوا، وہ یہ کہ دورِ جدید میں موت جیسا سنگین واقعہ بھی عملاً صرف ایک رسم بن کر رہ گیا ہے۔ تعزیت اور جنازہ و تدفین میں شرکت اب لوگوں کے لیے صرف فیملی گیدرنگ (family gathering) کا ایک موضوع بن گیا ہے، نہ کہ عبرت اور اظہارِ خیر خواہی کا موضوع۔
موجودہ زمانے کے بہت سے ”بزی“ اور ”ماڈرن“ لوگوں کے یہاں عیادت و تعزیت جیسی اعلیٰ انسانی قدروں کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ اِس کے لیے ”ٹائم“، مگر جو لوگ تعزیت کرتے بھی ہیں، وہ درد مند و غم گُسار بن کر نہیں، بلکہ ”مہمان“ بن کر اور صرف ایک بے روح سماجی رسم کے طور پر۔ ایک ہی مقام پر رہتے ہوئے بھی لوگ خیر خواہی اور مزاج پُرسی کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔ بہت سے مرد اور عورت مرنے والوں کی موت پر صف ِماتم بچھاتے اور اشک کا دریا بہاتے ہیں، مگر یہی لوگ اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ اُن کے یہ آنسو سچے آنسو نہ تھے۔ عملی واقعات بتاتے ہیں کہ یہی لوگ جذبات کے درجے میں بھی اپنے زندہ اور مرحوم اعزہ کے لیے کبھی حقیقی خیرخواہ ثابت نہیں ہوتے۔ موت کے اندوہ ناک موقعے پر بھی لوگ مرحوم کے گھر والوں سے ”خاطر داری“ کی توقع لے کر جاتے اور اِس کا تجربہ نہ ہونے پر موت کی یاد کے بجاے شکایت لے کر واپس ہوتے ہیں۔ اب اکثر قریبی اعزہ تک قبرستان ہی سے لوٹ جاتے ہیں۔ نہ دوبارہ وہ اپنے مرحوم عزیز کے گھر جا کر اُن کی غم گُساری کرتے ہیں اور نہ اُن کے لیے کوئی عملی کنٹری بیوشن۔ اِسی قساوت اور بے درد ذہنیت کا یہ نتیجہ ہے کہ بعد کو اکثر لوگ مرحوم کے اہلِخانہ کی کوئی خبر نہیں لیتے۔گ ویا اِس طرح کے موقعے پر صرف چہرہ دکھا کر اپنا نام درج کرانا اب بیش تر عورتوں اور مردوں کا فیشن بن چکا ہے۔
موت کے دردناک موقعے پر بھی لوگوں کا رویہ اکثر رسمی اور دنیا پرستانہ دکھائی دیتا ہے۔ موت کا واقعہ اُن کی انا اور احساسِ برتری کے جھوٹے مینار کو ڈھا دینے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ موت کی مجلس میں بھی لوگ کینہ و نفرت لے کر داخل ہوتے ہیں۔ وہ بعض لوگوں کی طرف لپکنے اور بعض کو نظرانداز کرنے کی پست روش سے اوپر نہیں اٹھ پاتے۔ موت کا طوفانی سیلاب بھی اُن کے دلوں کے زنگ اور کدورت کو صاف نہیں کرتا۔ موت کا سنگین واقعہ اُن کے حق میں ایک نئی خدا پرستانہ زندگی کی شروعات کے لیے نقطہئ آغاز نہیں بنتا۔ دلوں کو نرم اور روح کو پگھلا دینے والے اِس خدائی موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ اپنی زندگی کو بدلنے، خاص طو رپر اعزہ و اقارب اپنی انا اور کدورت کو ختم کرکے باہم بھائی بھائی بن کر ر ہنے کے بجاے بدستور وہ اپنے خود تراشیدہ اَہرام میں نخوت و رعونت کی زندہ لاش بنے رہتے ہیں۔
دوسرے کی موت اپنی موت کی یاددہانی کا ذریعہ اور اپنے جیسے ایک انسان کا اچانک اپنے درمیان سے اٹھ جانا اب لوگوں کے لیے موجودہ زندگی کی بے ثباتی کا ریمائنڈر نہیں بنتا۔ دوسرے کی تدفین کو وہ اپنی تدفین سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ اب بھی اپنے آپ کو موت سے زیادہ، زندگی سے قریب محسوس کرتے ہیں۔ قبرستان پہنچ کر بھی وہ اپنی دنیوی سرگرمیوں میں گم دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں بھی لوگوں کو موت کے بجاے موبائل یاد آتا ہے۔ وہ خدا اور اُس کے فرشتوں سے بات کرنے کے بجاے انسانوں سے بات کرنے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ قبرستان پہنچ کر بھی اُن کے دل نہیں پگھلتے، وہ رونے سے زیادہ ہنسنے میں حظ محسوس کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی بے روح ’مذہبیت‘ کی دھوم اُس وقت بھی کم نہیں ہوتی، جب کہ یہاں اِس قسم کی تمام ظاہر داریوں کو ڈھا کرخدا اُن کے لیے خوف و عبرت کا آخری موقع فراہم کر دیتا ہے۔ یہاں لوگ ”الحمدللہ“ اور ”ماشاء اللہ“ کی زبان میں پُر فخر طور پر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ میں نے غسل دیا، میں نے قبر میں اتارا، وغیرہ؛ مگر کوئی شخص موت اور آخرت کی یاد سے لرزتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ غسل و جنازہ اور قبر و لحد بھی بہت سے ’غیرعالم‘ مفتیوں کے لیے مقامِ عبرت کے بجاے ’مذہبی‘ موشگافیوں کا اکھاڑہ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر بھی اُن کو موت کے بجاے ’مسلک‘ دکھائی دیتا ہے۔ وہ دعاے مغفرت کے بجائے ان اعمال کو اختیار کرتے ہیں جن کا حکم نہ اللہ نے دیا اور نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو فریب دینے کی کامیاب کوشش میں مشغول نظر آتے ہیں۔
کاش، ہم موت کی یاد اور خدا کی کتاب قرآن مجید کی تلاوت و تدبر کے ذریعے سے اپنے دل کے اِس زنگ کو دور کرتے تو ہماری یہ تمام غفلتیں ختم ہوجاتیں، ”لذات“ اور دنیا پرستی کا گنبد ڈھے جاتا اور موت کا تجربہ ہمارے لیے بامقصد اور خدا پرستانہ زندگی اختیار کرنے کا ایک عظیم ربانی موقع ثابت ہوتا۔